اسلام آباد، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی صحت، قانونی حیثیت اور وطن واپسی کے حوالے سے دائر درخواست پر اہم پیش رفت کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے وضاحت طلب کی ہے کہ آخر امریکا میں جاری مقدمے میں پاکستان نے عدالتی معاونت یا فریق بننے سے انکار کیوں کیا؟ عدالت نے حکومت سے اس فیصلے کی وجوہات بیان کرنے کا حکم دیا ہے۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی، جس دوران درخواست گزار کے وکیل عمران شفیق، ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور دیگر حکومتی نمائندے عدالت میں پیش ہوئے۔ دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے امریکا میں جاری کیس میں کسی قسم کی قانونی معاونت یا فریق بننے سے معذرت کی ہے۔
اس پر عدالت نے سخت استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ “جب حکومت یا اٹارنی جنرل کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو اس کی آئینی اور قانونی بنیاد ہوتی ہے، اس عدالت کے سامنے کسی فیصلے کی وضاحت کے بغیر پیش ہونا قابل قبول نہیں۔” عدالت نے واضح کیا کہ وہ حکومتی فیصلے کی مکمل وجوہات اور اس کے پس منظر کو جاننا چاہتی ہے۔
مزید سماعت جمعہ 4 جولائی تک ملتوی کرتے ہوئے عدالت نے ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر تفصیلی تحریری جواب جمع کروایا جائے تاکہ کیس کی سنجیدہ نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھا جا سکے۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی، پاکستانی نژاد نیورو سائنٹسٹ ہیں جو 2003 میں کراچی سے لاپتہ ہوئیں اور بعد ازاں انہیں افغانستان سے گرفتار کر کے امریکا منتقل کیا گیا، 2010 میں ایک امریکی عدالت نے انہیں امریکی فوجیوں پر حملے کے الزام میں 86 سال قید کی سزا سنائی، ان کی رہائی اور وطن واپسی کے لیے پاکستان میں کئی مرتبہ آوازیں بلند ہو چکی ہیں، تاہم قانونی اور سفارتی پیچیدگیوں کے باعث اب تک کوئی حتمی پیش رفت نہ ہو سکی ہے۔