جنوبی ایشیا ایک بار پھر بے یقینی کے گرداب میں ہے، جہاں پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے پوری دنیا کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ دونوں ممالک کی جانب سے فوجی کارروائیوں اور جوابی حملوں کے بعد حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید نازک ہوتے جا رہے ہیں، جبکہ عالمی طاقتیں ان سے تحمل سے کام لینے کی اپیل کر رہی ہیں۔
ابتدائی طور پر یہ تاثر تھا کہ بھارتی فضائی کارروائی اور پاکستان کی جانب سے بھارتی طیارہ مار گرانے کے بعد دونوں ممالک محض علامتی کامیابیاں گنوا کر کشیدگی میں کمی لائیں گے۔ مگر صورتحال اس کے برعکس رخ اختیار کر رہی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو یہ محض سفارتی کشیدگی تک محدود نہیں رہے گا بلکہ خطے کو خطرناک تصادم کی طرف دھکیل سکتا ہے۔
پاک-بھارت تناؤ کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں بھی ایسے مواقع پر امریکہ اور دیگر بااثر ممالک نے سفارتی دباؤ کے ذریعے دونوں فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم اس بار معاملہ مختلف دکھائی دیتا ہے۔ دونوں ملکوں میں قوم پرستی کے جذبات عروج پر ہیں، میڈیا اور سوشل میڈیا پر عوامی جذبات مزید بھڑک رہے ہیں، اور ایک بار پھر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ دونوں ہمسایہ ممالک جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں۔
موجودہ حالات میں اگر واشنگٹن نے مؤثر سفارتی کردار ادا نہ کیا تو الزام تراشی اور جوابی بیانات کا سلسلہ مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔ اس وقت ضرورت ہے کہ خطے میں استحکام کی خاطر مؤثر سفارتی قدم اٹھائے جائیں۔
خلیجی ممالک جیسے کہ سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات، جن کے دونوں ممالک سے اچھے تعلقات ہیں، ثالثی کا کردار ادا کر کے کشیدگی کم کرنے میں معاون ہو سکتے ہیں۔ ان کی غیر جانب دار سفارت کاری دونوں فریقین کے درمیان اعتماد سازی کے لیے اہم ثابت ہو سکتی ہے۔
اگرچہ امریکی حکومت اس وقت چین، روس اور یوکرین جیسے معاملات میں الجھی ہوئی ہے، تاہم جنوبی ایشیا میں دو ایٹمی ممالک کے درمیان بگڑتی ہوئی صورتحال عالمی توجہ کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ وقت ہے کہ اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری موثر اقدامات کرے تاکہ بات بندوقوں کی گھن گرج تک نہ پہنچے۔