اسپین میں ہونے والی تحقیق کے مطابق بحیرہ روم کی غذا جگر کی صحت بہتر بناتی ہے، چربی کم کرتی ہے اور ذیابیطس و موٹاپے جیسے امراض سے بچاتی ہے۔
اسپین: جگر میں چربی جمع ہونے کا مرض، جسے طبی اصطلاح میں Non-Alcoholic Fatty Liver Disease (NAFLD) کہا جاتا ہے، دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں ذیابیطس ٹائپ 2 اور موٹاپے جیسے خطرناک میٹابولک امراض لاحق ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
اس ضمن میں اسپین کی Rovira i Virgili یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بحیرہ روم کی روایتی غذا کو معمول بنا لینے سے اس خطرناک مرض سے بچاؤ میں مدد مل سکتی ہے۔
بحیرہ روم (Mediterranean) کی غذا عمومی طور پر اسپین، یونان، اٹلی اور فرانس جیسے ممالک کے لوگ استعمال کرتے ہیں۔ یہ غذا زیادہ تر پھلوں، سبزیوں، سادہ اجناس، گریوں، مچھلی، زیتون کے تیل اور کم مقدار میں سرخ گوشت پر مشتمل ہوتی ہے۔
تحقیق میں 926 افراد پر مشتمل 13 مختلف کلینیکل ٹرائلز اور سائنسی رپورٹس کا جائزہ لیا گیا، جن میں جگر کی چربی سے متاثرہ افراد کی غذائی عادات اور ان کے اثرات کو ریکارڈ کیا گیا۔
نتائج سے ظاہر ہوا کہ جن افراد نے Mediterranean ڈائٹ کو اپنایا، ان میں نہ صرف جگر پر چربی کی سطح میں نمایاں کمی واقع ہوئی، بلکہ ان کا بلڈ شوگر لیول بہتر ہوا، جسمانی سوزش میں کمی آئی اور وزن بھی کم ہوا — یہ تمام عوامل جگر کے افعال کو بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
محققین نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اگر اس غذا کے ساتھ انٹرمٹنٹ فاسٹنگ کو اپنایا جائے تو مزید مثبت نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ انٹرمٹنٹ فاسٹنگ میں روزانہ مخصوص گھنٹوں میں کھانے سے پرہیز کیا جاتا ہے، اور اس طریقے کو دنیا بھر میں وزن کم کرنے اور صحت مند طرزِ زندگی اپنانے کا مؤثر ذریعہ تصور کیا جا رہا ہے۔
اگرچہ محققین نے زور دیا ہے کہ اس میدان میں مزید سائنسی تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ ان نتائج کو مزید تقویت دی جا سکے، تاہم ابتدائی شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ مناسب غذا جگر کی صحت میں نمایاں بہتری لا سکتی ہے۔
یاد رہے کہ جگر میں چربی کا مرض اکثر خاموشی سے بڑھتا ہے، اور بروقت علاج نہ ہونے کی صورت میں یہ جگر کے سنگین امراض جیسے سروسس یا جگر فیل ہونے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ لہٰذا صحت مند غذا اور طرزِ زندگی اپنانا ناگزیر ہے۔