سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے معاملے پر نظرثانی درخواستوں پر 7 ججز کی اکثریتی رائے سے فیصلہ سناتے ہوئے پہلے جاری کردہ فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ عدالت نے واضح کیا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق پہلے فیصلے میں قانونی اصولوں کو نظر انداز کیا گیا تھا۔
فیصلہ سپریم کورٹ کے 10 رکنی آئینی بینچ نے سنایا، جس کی سربراہی جسٹس امین الدین نے کی۔ بینچ کے ایک رکن جسٹس صلاح الدین پنہور نے فریقین کے اعتراضات پر خود کو بینچ سے علیحدہ کر لیا، جس کے بعد سماعت 10 ججز نے مکمل کی۔
دوران سماعت حکومتی متاثرہ ارکان کے وکیل مخدوم علی خان اور اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ سپریم کورٹ نے اپنے مختصر حکم میں رول 94 کو غیر آئینی قرار نہیں دیا تھا، تاہم تفصیلی فیصلے میں اسے غیر آئینی قرار دیا گیا جو قانونی طور پر درست نہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ “ہم نے وہ دے دیا جو مانگا ہی نہیں گیا تھا، پھر بھی گالیاں ہمیں پڑ رہی ہیں۔” انہوں نے یہ بھی کہا کہ “سپریم کورٹ کا وقار بحال ہونا چاہیے، ہم پر بے جا تنقید نہیں ہونی چاہیے۔”
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ “اصل غلطی پی ٹی آئی کے وکلا کی ہے، جنہیں مزید تربیت کی ضرورت ہے۔” بینچ نے یہ بھی واضح کیا کہ پی ٹی آئی نے کیس میں باقاعدہ فریق بننے کی درخواست نہیں دی تھی، جبکہ کچھ ججز نے نشاندہی کی کہ انتخابی معاملات میں قانونی طریقہ کار کی مکمل پابندی ضروری ہوتی ہے۔
وکیل مخدوم علی خان نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ ارکان جو آزاد حیثیت سے منتخب ہو کر کسی ایسی جماعت میں شامل ہوئے جس کے پاس مخصوص نشستوں کے لیے مطلوبہ قانونی حیثیت نہیں تھی، وہ ان نشستوں کے اہل نہیں ہو سکتے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ رول 94 کو کسی فریق نے چیلنج ہی نہیں کیا تھا، اس پر فیصلہ دینا قانونی دائرہ اختیار سے باہر تھا۔
نظرثانی کی سماعت مکمل ہونے کے بعد عدالت نے مختصر فیصلہ جاری کیا، جبکہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
پس منظر:
-
4 مارچ: الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دینے سے انکار کیا۔
-
12 جولائی: سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں کا حقدار ٹھہرایا۔
-
6 مئی: سپریم کورٹ نے اس فیصلے پر نظرثانی کی درخواست منظور کر کے لارجر بینچ تشکیل دیا۔
-
27 جون: نظرثانی کی سماعت مکمل ہونے پر نیا فیصلہ جاری کیا گیا جس کے مطابق پہلا فیصلہ منسوخ کر دیا گیا ہے۔