روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے سینٹ پیٹرزبرگ اکنامک فورم میں ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای کو دی گئی امریکی و اسرائیلی دھمکیوں پر بات کرنے سے گریز کیا، کہا: روس کسی پر کچھ مسلط نہیں کر رہا۔
ماسکو، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے امریکا اور اسرائیل کی جانب سے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو قتل کی مبینہ دھمکیوں پر تبصرے سے صاف انکار کر دیا۔ روس میں جاری سینٹ پیٹرزبرگ انٹرنیشنل اکنامک فورم کے دوران جب ان سے ان دھمکیوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتے۔
صدر پیوٹن نے گفتگو کے دوران کہا کہ "روس کسی پر کچھ مسلط نہیں کر رہا، مگر ہم یہ ضرور چاہتے ہیں کہ موجودہ سنگین صورتحال سے نکلنے کے لیے راستہ تلاش کیا جائے۔” انہوں نے براہ راست طور پر امریکا یا اسرائیل کا نام لیے بغیر بین الاقوامی سطح پر بڑھتے ہوئے تناؤ پر محتاط تبصرہ کیا۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ دنوں ایک متنازع بیان میں کہا تھا کہ "انہیں علم ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر کہاں ہیں، وہ ایک آسان ہدف ہیں لیکن ہم ابھی انہیں قتل نہیں کر رہے۔” اس بیان کو عالمی سطح پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ذرائع کے مطابق اس سے قبل یہ اطلاعات بھی منظرِ عام پر آ چکی ہیں کہ اسرائیل نے مبینہ طور پر آیت اللہ خامنہ ای کے قتل کا منصوبہ تیار کیا تھا، تاہم امریکی صدر نے مبینہ طور پر اس منصوبے کو ویٹو کر دیا۔
روسی صدر کی جانب سے اس معاملے پر خاموشی کو سفارتی احتیاط سمجھا جا رہا ہے، کیونکہ ایران روس کا اہم اتحادی ہے، جبکہ روس کے امریکا اور اسرائیل کے ساتھ پہلے ہی تعلقات کشیدہ ہیں۔ عالمی مبصرین پیوٹن کے اس غیر مبہم مؤقف کو ایک محتاط سفارتی حکمت عملی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
یاد رہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں جاری کشیدگی، ایران-اسرائیل تناؤ، اور امریکا کی مداخلت نے خطے کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ ایسے میں عالمی طاقتوں کے بیانات اور طرزِ عمل دنیا کے امن پر گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔