منگل, 17 جون , 2025

سعودی عرب میں معروف صحافی کی سزائے موت پر عملدرآمد

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

سعودی عرب میں صحافیوں اور بلاگرز کے لیے اظہارِ رائے کی آزادی ایک بار پھر شدید دباؤ میں آ گئی ہے، جہاں معروف صحافی اور بلاگر ترکی الجاسر کو سزائے موت دے دی گئی۔

عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق، 40 سالہ ترکی الجاسر کو 2018 میں ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری کے دوران ان کا موبائل فون اور لیپ ٹاپ بھی ضبط کر لیے گئے تھے، جن سے مبینہ طور پر ریاست مخالف مواد برآمد ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔

latest urdu news

عرب میڈیا کے مطابق، تفتیش کے دوران یہ دعویٰ کیا گیا کہ ترکی الجاسر کے ڈیجیٹل آلات سے ایسی معلومات سامنے آئیں جو انہیں ریاست کے خلاف سرگرمیوں، جاسوسی اور غداری جیسے سنگین الزامات کے دائرے میں لے آئیں۔ تاہم ان کے مقدمے کی سماعت کب اور کہاں ہوئی، اس کی تفصیلات منظر عام پر نہیں آئیں، جو عدالتی شفافیت کے حوالے سے سنجیدہ سوالات کو جنم دیتی ہے۔

سعودی حکام کا کہنا ہے کہ عدالت میں ان پر الزامات ثابت ہو گئے، جس پر سزائے موت سنائی گئی، اور ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے اس کی توثیق بھی کر دی ہے۔ دوسری جانب، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے اس فیصلے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی الجاسر کو درحقیقت سوشل میڈیا پر شاہی خاندان اور حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنے کی سزا دی گئی ہے۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (CPJ) کے مطابق، سعودی حکام کا شبہ تھا کہ ترکی الجاسر ایک ایسے خفیہ ٹوئٹر اکاؤنٹ کے پیچھے تھے جو شاہی خاندان پر کرپشن کے الزامات عائد کرتا رہا۔ ان پر شدت پسند گروہوں سے متعلق متنازع ٹویٹس کا الزام بھی لگایا گیا۔ الجاسر نے 2013 سے 2015 تک ایک ذاتی بلاگ بھی چلایا، جس میں وہ عرب بہار، خواتین کے حقوق، اور حکومتی اصلاحات جیسے موضوعات پر کھل کر لکھتے رہے۔ وہ ان نایاب آوازوں میں شامل تھے جو سعودی معاشرے میں تبدیلی اور مثبت اصلاحات کے لیے کوشاں تھے۔

سعودی عرب میں سزائے موت کا طریقۂ کار—جس میں اکثر سر قلم کرنے یا اجتماعی سزائیں شامل ہوتی ہیں—طویل عرصے سے عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنتا آ رہا ہے۔ 2024 میں 330 افراد کو سزائے موت دی گئی، جب کہ 2025 کے صرف ابتدائی پانچ مہینوں میں یہ تعداد 100 سے تجاوز کر چکی ہے۔

ترکی الجاسر کا واقعہ نہ صرف عدالتی شفافیت بلکہ سعودی عرب میں اظہارِ رائے کی آزادی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے عالمی برادری کے لیے ایک انتہائی تشویشناک علامت بن چکا ہے۔ اس فیصلے نے ایک بار پھر یاد دہانی کرائی ہے کہ جہاں ریاستیں سکیورٹی اور نظم و ضبط کو بنیاد بنا کر آزادیِ اظہار پر قدغن لگاتی ہیں، وہاں نہ صرف آئینی اصول پامال ہوتے ہیں بلکہ معاشرے کی فکری آزادی بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter