جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کم عمری میں شادی کے قانون کو قرآن و سنت کے منافی قرار دیتے ہوئے ملک بھر میں احتجاج کا اعلان کر دیا۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کم عمری میں شادی سے متعلق قانون سازی کو مسترد کرتے ہوئے ملک بھر میں احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اصل شناخت اسلام ہے مگر موجودہ قانون سازیوں سے اس شناخت کو مٹانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ حالیہ قوانین آئی ایم ایف کی تجاویز اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بنیاد پر بنائے جا رہے ہیں، جن کا مقصد اسلامی تعلیمات کو پسِ پشت ڈالنا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے خاص طور پر مدارس کے قانون پر صدرِ مملکت کی جانب سے دستخط نہ کیے جانے پر ناراضگی ظاہر کی اور کہا کہ یہ تاخیر جان بوجھ کر کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی قانون سازی کی جا رہی ہے جو قرآن و سنت کے منافی ہے، جس سے جمہوریت بھی اپنا مقدمہ ہارتی دکھائی دے رہی ہے اور ایسے اقدامات مسلح گروہوں کے بیانیے کو تقویت دینے کے مترادف ہیں۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ جنرل مشرف کے دور میں بھی اسی طرح کے اقدامات کیے گئے تھے جن میں خواتین کے حقوق کے نام پر اسلامی احکامات کو چیلنج کیا گیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کم عمری شادی کے قانون کو پہلے ہی مسترد کر چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نکاح جیسے جائز عمل کو مشکل بنایا جا رہا ہے جبکہ زنا بالجبر کے لیے راہیں آسان کی جا رہی ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے عالمی حالات پر بھی بات کرتے ہوئے کہا کہ دنیا ایک نئی سرد جنگ میں داخل ہو چکی ہے، اور ایشیا، چین کی قیادت میں ابھرتی ہوئی معاشی طاقت بننے جا رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے تناظر میں ان کا کہنا تھا کہ مودی کی حماقتیں معاملات کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کر رہی ہیں، حالانکہ امید تھی کہ یہ مسائل مفاہمت سے حل ہوں گے۔
انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ پی پی پی کا پی ٹی آئی کے خلاف احتجاج محض اس لیے تھا کہ تحریک انصاف نے کرپشن میں ان کا ریکارڈ بھی توڑ دیا۔
یاد رہے کہ مولانا فضل الرحمان اس سے قبل بھی کئی اہم مذہبی اور سیاسی معاملات پر حکومت کے خلاف احتجاج کی قیادت کر چکے ہیں اور ان کی جماعت مذہبی حلقوں میں مضبوط اثر و رسوخ رکھتی ہے۔