قدیم گجرات: سوہنی مہیوال کی لازوال عشقیہ داستان

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

سوہنی مہیوال کی داستان کا آغاز پنجاب کے تاریخی اور ثقافتی شہر گجرات سے ہوتا ہے، جو اس وقت دریائے چناب کے کنارے واقع ایک اہم تجارتی مرکز تھا۔

سوہنی ایک کمہار خاندان سے تعلق رکھتی تھی، جہاں اس کے والد مٹی کے برتن بنانے اور فروخت کرنے کے فن میں ماہر تھے۔ ان کے بنائے ہوئے مٹکے، گھڑے اور دیگر برتن دور دور تک مشہور تھے۔ ان کے خاندان کی دکان گجرات شہر میں تھی، جہاں روزانہ سینکڑوں لوگ برتن خریدنے آتے، اور یہیں سوہنی بھی اپنے والد کے کام میں ہاتھ بٹاتی تھی۔ وہ نہ صرف حسین و جمیل تھی بلکہ مٹی کے برتنوں کو خوبصورتی سے سجانے اور نقش و نگار بنانے میں بھی مہارت رکھتی تھی۔ انہی خوبیوں کی وجہ سے اس کی ملاقات ازبکستان کے شہر بخارا سے آئے ایک تاجر عزیز (مہیوال) سے ہوئی، جو بعد میں اس کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔ سوہنی کا خاندانی پس منظر، ہنر، اور فنون لطیفہ سے وابستگی اس کی کہانی کو محض ایک عشق کی داستان نہیں، بلکہ پنجاب کی ثقافت، ہنر، اور لوک ورثے کا آئینہ بناتی ہے۔

latest urdu news

ابتدائے عشق:

ازبکستان کے رئیس زادے کا بیٹا، روایات میں جس کا نام مرزا عزت بیگ سننے کو ملتا ہے، پیشے کے لحاظ سے ایک بیوپاری تھا۔ تجارتی غرض سے دہلی سے واپسی پر بخارا کی جانب محوِ سفر تھا جب اس نے گجرات کی سرزمین پر قیام کیا۔ چناب کے کنارے پڑاؤ کے وقت مہیوال کو اس کے نوکر نے خوبصورت نقش و نگار سے مزین ایک گھڑا بطور تحفہ پیش کیا۔ گھڑے کی خوبصورتی سے متاثر مرزا عزت بیگ، مٹی کے برتنوں کو اپنے بیوپار میں شامل کرنے کی غرض سے جب کمہار کے گھر تشریف لاتا ہے، تو وہیں اس کی نظر سوہنی پر پڑتی ہے۔

قدیم گجرات: سوہنی مہیوال کی لازوال عشقیہ داستان

ابتدائے عشق

سوہنی کو پہلی نظر دیکھ کر مہیوال اس کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اپنے محبوب کے اردگرد رہنے کے لیے وہ بخارا کا سفر ترک کر کے اسی علاقے میں مٹی کے برتنوں کی ایک دکان بنا لیتا ہے۔ سوہنی کے پیار میں پاگل مہیوال مہنگے دام گھڑے خریدتا اور اونے پونے دام بیچ دیتا۔ ایک دن گھڑے خریدنے کی غرض سے جب مہیوال سوہنی کے گھر جاتا ہے، ان دونوں کی نگاہیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں اور وہیں سے سوہنی بھی مہیوال کے عشق میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مہیوال کا کاروبار تنزلی کی جانب تیزی سے بڑھ رہا تھا اور دوسری طرف سوہنی اور مہیوال کے جذبات ایک دوسرے کے لیے عشق کی نئی منازل طے کر رہے تھے۔ مہیوال کے نوکر چاکر، دوست احباب مہیوال کے اس پاگل پن سے تھک ہار کر آہستہ آہستہ ساتھ چھوڑ کر چلے گئے۔

مرزا عزت بیگ کو "مہیوال” کا نام کیسے ملا؟

سارا کاروبار ختم ہونے کے بعد، مرزا عزت بیگ مفلس ہو گیا اور سوہنی کے والد کے ہاں چرواہے کی حیثیت سے ملازم ہو گیا، جہاں وہ اُن کی بھینسوں کی دیکھ بھال کرنے لگا۔ (بھینس کو پنجاب میں مہیاں کہا جاتا ہے۔) چونکہ مرزا عزت بیگ اب بھینسوں کی دیکھ بھال پر مامور ہو چکا تھا، وہیں سے اسے مہیوال کا لقب مل گیا۔

سوہنی کی زبردستی کی شادی:

جب سوہنی کے والد، عطا اللہ خان، کو خبر ہوئی کہ اُس کی بیٹی دل ہار بیٹھی ہے، اور وہ بھی ایک فقیر، ایک مٹی میں رچا عاشق مہیوال سے، تو اُس کے سینے پر گویا غیرت کی چنگاری بھڑک اٹھی۔ اُس نے عزت کے نام پر، رسم و روایت کے نام پر، وہ فیصلہ کیا جو ہر عاشق کی جان پر بھاری ہوتا ہے۔ سوہنی کی شادی چناب کے اُس پار کر دی۔ اور اُدھر مہیوال… وہ عشق کی آگ میں جلتا، گجرات کی مٹی میں تپتا، اپنے جھونپڑے میں تنہا، سوہنی کے عشق میں پاگل، وصل کی راہیں تلاش کرنے لگا۔

مرزا عزت بیگ کو "مہیوال" کا نام کیسے ملا؟

سوہنی کی زبردستی کی شادی

لازوال عشق کا حقیقی سفر:

سوہنی کی جبراً ہوئی شادی کے بعد، اُس عشقِ لازوال کا اصل آغاز ہوتا ہے جسے وقت کبھی مٹا نہ سکا۔ ہر رات، مہیوال اپنے جذبے کی کشتی میں سوار ہو کر دریائے چناب کی موجوں سے لڑتا، سوہنی کی صرف اس ایک جھلک کے لیے دریا پار کرتا تھا، جو اسے جینے کا حوصلہ دیتی تھی۔ وہ دریا سے مچھلی پکڑ کر لاتا اور اُسے اپنے ہاتھوں سے کھلاتا، جیسے ہر نوالہ اُس کی محبت کا سندیسہ ہو۔ مگر ایک رات، دریا خالی ہاتھ کر دیتا ہے۔ مہیوال کی بے چینی بڑھتی ہے، عشق کی شدت حد سے گزرتی ہے، اور جب کچھ اور نہ بچتا، تو وہ اپنی ہی ران سے گوشت کا ٹکڑا کاٹ کر سوہنی کو پیش کر دیتا ہے۔

سوہنی نے جب اپنے عاشق کی ٹپکتی رگوں اور زخمی وجود کو دیکھا، تو اس کی روح تڑپ اٹھی۔ آنکھوں سے اشک اور دل سے ایک فیصلہ نکلا: "اب ہر رات تم دریا پار نہیں کرو گے، میں آؤں گی، اُس پار… صرف تمہارے لیے۔” اسی لمحے، یہ عشق ایک نئی شکل اختیار کر گیا۔ ایسا عشق، جو صرف وصال نہیں، قربانی میں بھی امر ہو گیا۔

لازوال عشق کا حقیقی سفر

لازوال عشق کا حقیقی سفر

عشق کی راہوں میں آزمائش ہمیشہ موجود ہوتی ہے۔ سوہنی کو تیرنا نہیں آتا تھا۔ روایتوں میں آتا ہے کہ سوہنی کی نند کو اس کے راز کی بھنک لگ چکی تھی۔ اس نے محبت کی اس راہ میں زہر گھولنے کے لیے، سوہنی کے پکے گھڑے کو چپکے سے بدل کر کچا گھڑا رکھ دیا۔ ایک ایسا گھڑا جو چناب کی لہروں اور سوہنی مہیوال کے عشق کی تاب نہ لا سکا۔ کچھ روایتیں یہ بھی کہتی ہیں کہ سوہنی نے جب گھڑے کو تھاما، تو اس کے ہاتھوں نے گھڑے کو پہچان لیا تھا۔ اسے معلوم ہو چکا تھا کہ یہ گھڑا کچا ہے، دھوکہ ہے، جال ہے۔ مگر مہیوال کا عشق، اُس کی روح پر اس قدر چھا چکا تھا کہ ہوش، خوف اور انجام سب ماند پڑ گئے۔

قصے کہانیوں میں یوں بیان ہوتا ہے کہ اُس رات چناب اپنی پوری طغیانی کے ساتھ بپھرا ہوا تھا، جیسے خود عشق کے امتحان کا میدان بن چکا ہو۔ دریا کی بے رحم موجیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں، اور سوہنی۔۔۔ عشق کی دیوانی، کچے گھڑے پر سوار، اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر مہیوال کی طرف رواں تھی۔ مگر وہ گھڑا پانی میں اترتے ہی آہستہ آہستہ گھلنے لگا، جیسے عشق کی راہ میں ہر سہارا بے معنی ہو گیا ہو۔ دریا کے بیچوں بیچ سوہنی کی بے بسی، اس کی سسکیاں، اور آنکھوں میں وصال کی آخری چمک ڈوبنے لگی۔ اُسے ڈوبتا دیکھ کر، مہیوال کی روح تڑپ اٹھی۔

لازوال عشق کا حقیقی سفر

لازوال عشق کا حقیقی سفر

زخموں سے چور، تن سے نڈھال، مگر عشق سے سرشار مہیوال نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر خود کو دریا کے حوالے کر دیا۔ وہ جانتا تھا کہ اُس کی طاقت کم ہے، دریا بپھرا ہوا ہے، مگر یہ بھی جانتا تھا کہ اگر سوہنی کو نہ بچا سکا، تو جینا کس کام کا؟ اور پھر وہ بھی لہروں میں ڈوب گیا… ہمیشہ کے لیے۔

یہ وہ لمحہ تھا جہاں عشق نے خود کو قربانی میں بدل ڈالا، جہاں محبت نے فنا کو قبول کیا مگر جدائی کو نہیں۔ سوہنی اور مہیوال اس دنیا میں نہ مل سکے، مگر ان کا عشق، ان کی سپردگی اور ان کی وفا آج بھی ہر دل میں زندہ ہے۔ یہ وہ داستان ہے جہاں جسم بچھڑ گئے، مگر روحیں ہمیشہ کے لیے ایک ہو گئیں، ایسا عشق جو وقت سے، تقدیر سے، اور موت سے بھی جیت گیا۔

پنجابی کلاسیکی شاعر سید فضل شاہ اور سوہنی مہیوال کا قصہ:

یہ داستان اگرچہ لوک روایتوں میں کئی صدیوں سے موجود ہے، سوہنی مہیوال کی داستان پنجاب کی ایک عظیم لوک کہانی ہے، جو محبت، قربانی اور تقدیر کے پیچیدہ رشتے کو بیان کرتی ہے۔ اس کہانی کو سب سے پہلے شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اپنی کتاب "شاہ جو رسالو” میں ذکر کیا تھا، اور بعد میں سید فضل شاہ نے اس پر ایک طویل منظوم پنجابی قصہ لکھا، جس نے اس کہانی کو مزید مقبول بنایا۔ فضل شاہ کی تحریر میں سوہنی کی پیدائش، پرورش، اور اس کی مٹی کے برتن بنانے کے فن میں مہارت کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ سید فضل شاہ کے اس طویل ترین قصے میں سے منتخب حصہ، جو سوہنی مہیوال کی وفات کے بعد سوگ منانے کی تلقین کرتا ہے، آپ پڑھ سکتے ہیں:

سوہنی مہینوال دا سوگ

اُٹھو ونجو حج نوں، قافلا ہو گیا تیار
اک واری کعبے نوں منہ کر کے، آکھو ربّ دا پیار
پیارے نوں اس وار، وساہ نئیں لبھدے
سوہنی گئ جُھلا مار
کچّا گھڑا سی، نالوں ساڈے پیار دا
ویکھو ہویا وار
میڈے ربّا، ساڈی جھولی وچّ درد تے پیار
اوہناں نوں بخشی، جیہڑے عشق دے مارے
ساہ تے گئے، تے کیہڑا سنبھالے وے؟
چنّاں نوں ساہ وی نہارے
ساہ وی گئے، سجنّاں دے پیارے

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter