آئی اے ای اے کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایران کے پاس 408.6 کلوگرام 60 فیصد افزودہ یورینیم موجود ہے، جسے امریکی حملوں سے قبل خفیہ مقامات پر منتقل کیا گیا۔ عالمی سطح پر تشویش کی لہر دوڑ گئی۔
ایران کے پاس موجود 400 کلوگرام سے زائد 60 فیصد افزودہ یورینیم کا ذخیرہ دنیا بھر میں تشویش کا باعث بن گیا ہے۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، مئی 2025 تک ایران کے پاس 408.6 کلوگرام افزودہ یورینیم موجود تھا، جو جوہری پروگرام کے حوالے سے غیر معمولی سطح تصور کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ 90 فیصد افزودہ یورینیم تقریباً 10 جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے کافی ہوتا ہے، اور ایران اس ہدف سے خطرناک حد تک قریب تر ہے۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق، ایران نے یہ حساس جوہری مواد حالیہ امریکی فضائی حملوں سے قبل ہی خفیہ مقامات پر منتقل کر دیا تھا، جس کی وجہ سے اب نہ صرف امریکا بلکہ اسرائیل کو بھی اس ذخیرے کے مقام کا علم نہیں۔ امریکی اور اسرائیلی حکام اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ ایران کی جانب سے یورینیم کے ذخیرے کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا ایک بڑی حکمت عملی کا حصہ تھا۔
اس صورتحال پر ردعمل دیتے ہوئے امریکا میں پاکستان کی سابق سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ ابتدائی طور پر امریکہ کا دعویٰ تھا کہ اس نے ایرانی جوہری تنصیبات کو شدید نقصان پہنچایا ہے، لیکن اب انہی ذرائع سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایران واقعی افزودہ یورینیم کو بچانے میں کامیاب رہا ہے تو یہ تہران کی ایک بڑی سفارتی اور تزویراتی فتح شمار ہوگی۔
ملیحہ لودھی نے مزید کہا کہ ایران، اسرائیل اور امریکہ تینوں سیزفائر کے بعد یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ انہوں نے اپنے اپنے مقاصد حاصل کر لیے ہیں، لیکن جوہری مواد کا تحفظ ایران کے لیے نہ صرف اسٹریٹیجک کامیابی ہے بلکہ یہ امریکہ و اسرائیل کے لیے ایک گہری تشویش کا باعث بھی بن گیا ہے۔
یاد رہے کہ ایران کے جوہری پروگرام پر برسوں سے مغربی دنیا کو تحفظات رہے ہیں، جبکہ ایران مسلسل اس بات کا دعویٰ کرتا آیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم، افزودہ یورینیم کے اس قدر ذخیرے اور اس کی خفیہ منتقلی نے مشرق وسطیٰ میں ایک نئی کشیدگی کو جنم دے دیا ہے۔