اسلام میں قربانی محض ایک رسم یا گوشت حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں، بلکہ یہ ایثار، سخاوت اور اللہ کی اطاعت کا عملی مظہر ہے۔
عیدالاضحیٰ کے موقع پر مسلمان اپنے رب کی رضا کے لیے جانور قربان کرتے ہیں اور اس کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں، ایک حصہ خود کے لیے، دوسرا رشتہ داروں اور دوستوں کے لیےاور تیسرا حصہ غریب و نادار افراد کے لیے مختص ہوتا ہے، یہی تقسیم قربانی کے روحانی، سماجی اور اخلاقی پیغام کو مکمل کرتی ہے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ دور میں قربانی کے فوراً بعد گوشت کو بڑی مقدار میں فریز کر لینے کا رجحان عام ہو چکا ہے، لوگ اسے مہینوں تک استعمال کرتے رہتے ہیں، جس سے نہ صرف قربانی کا اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے بلکہ کئی صحت کے مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق اگر گوشت کو بار بار ڈی فروسٹ اور فریز کیا جائے یا مناسب درجہ حرارت پر نہ رکھا جائے تو اس میں بیکٹیریا پیدا ہو سکتے ہیں، جو انسانی صحت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں، اس کے علاوہ گوشت کی اصل ساخت، ذائقہ اور غذائیت بھی متاثر ہوتی ہے، اور اکثر اس میں بو آنا شروع ہو جاتی ہے۔
قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ تم خود بھی اس میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں کو اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ (سورۃ الحج: 36)، یہ واضح ہدایت ہمیں قربانی کے گوشت کو تقسیم کرنے کا درس دیتی ہے، نہ کہ اسے ذخیرہ کر لینے کا۔
سماجی نقطۂ نظر سے بھی گوشت فریز کرنا ایک ایسا عمل ہے جو محتاج اور مستحق افراد کا حق سلب کر لیتا ہے، کئی گھرانے ایسے ہوتے ہیں جنہیں سال میں صرف عیدالاضحیٰ پر ہی گوشت نصیب ہوتا ہے، اگر ہم سارا یا زیادہ تر گوشت فریز کر لیں تو ان کی محرومیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
گرمیوں کے موسم میں بجلی کی بندش یا خراب فریج کی صورت میں گوشت ضائع ہو جانے کا اندیشہ بھی بڑھ جاتا ہے، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ گوشت جلد از جلد مستحقین تک پہنچا دیا جائے، اگر کسی مجبوری کے باعث فوراً مکمل تقسیم ممکن نہ ہو تو ایک دو دن کے لیے فریز کیا جا سکتا ہے، مگر مہینوں کی ذخیرہ اندوزی روحِ قربانی کے خلاف ہے۔
قربانی کا گوشت بانٹنے سے نہ صرف رب کی رضا حاصل ہوتی ہے بلکہ ایک سماجی نظام بھی مضبوط ہوتا ہے جہاں خوشیاں سب میں برابر تقسیم ہوتی ہیں،یہی سنتِ نبوی ﷺ کا پیغام ہے اور یہی حقیقی قربانی ہے۔