اسلام آباد ، ایلون مسک کی کمپنی اسٹارلنک جو دنیا بھر میں سیٹلائٹ کے ذریعے انٹرنیٹ فراہم کرتی ہے ، تاحال پاکستان میں اپنی سروس کا آغاز نہیں کر سکی، ذرائع کے مطابق، اس تاخیر کی بنیادی وجوہات میں ریگولیٹری پیچیدگیاں ، سیکیورٹی کے حوالے سے تحفظات اور کرنسی سے متعلق مسائل شامل ہیں۔
اسٹارلنک پاکستان میں ڈالر کے ذریعے بلنگ پر اصرار کر رہی ہے، جبکہ حکومت چاہتی ہے کہ صارفین کو مقامی کرنسی میں ادائیگی کی سہولت دی جائے۔
ماہرین کے مطابق، ڈالر میں ادائیگی سے ملک کے زرمبادلہ ذخائر پر دباؤ بڑھ سکتا ہے، اس کے علاوہ، چونکہ اسٹارلنک کا انفراسٹرکچر بیرونِ ملک واقع ہے اور یہ مقامی انٹرنیٹ گیٹ ویز سے آزاد ہو کر کام کرتا ہے، اس لیے حکومتی کنٹرول اور سائبر سیکیورٹی پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
آئی ٹی ماہرین خبردار کر چکے ہیں کہ اسٹارلنک کے ذریعے صارفین ریاستی نگرانی، فلٹرنگ اور سیکیورٹی سسٹمز کو بائی پاس کر کے قابل اعتراض مواد تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ حکومت معاملے پر محتاط انداز میں پیش رفت کر رہی ہے اور واضح پالیسی کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔
اس کے باوجود، اسٹارلنک نے پاکستان میں سروس کی فراہمی کے لیے کئی اہم مراحل کامیابی سے مکمل کر لیے ہیں، کمپنی نے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ اور اسپیس ایکٹیوٹیز ریگولیٹری بورڈ سے رجسٹریشن حاصل کر لی ہے، جبکہ وزارت داخلہ سے کلیئرنس کے بعد اسے این او سی بھی جاری کر دیا گیا ہے۔
اب صرف پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) سے باضابطہ لائسنس کا حصول باقی ہے، پی ٹی اے اس وقت کمپنی کی جانب سے جمع کروائی گئی دستاویزات کا تفصیلی جائزہ لے رہا ہے، جس کے بعد سروس کے آغاز کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
پاکستان نے حالیہ برسوں میں سیٹلائٹ کمیونیکیشن کو فروغ دینے کے لیے کئی اہم اقدامات کیے ہیں، 2023 میں نیشنل سیٹلائٹ پالیسی متعارف کرائی گئی، جبکہ 2024 میں اسپیس ایکٹیوٹیز رولز نافذ کیے گئے تاکہ ملکی سطح پر خلا سے جڑے رابطوں کو مؤثر اور محفوظ بنایا جا سکے۔
اگر اسٹارلنک کو مکمل اجازت مل گئی تو یہ سروس پاکستان کے دور دراز اور انٹرنیٹ سے محروم علاقوں میں رابطے کی دنیا میں ایک نیا باب کھول سکتی ہے۔