اسلام آباد: وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم سے اگرچہ پانی کی دستیابی میں اضافہ ہوگا، تاہم اس منصوبے سے سستی بجلی کا حصول ممکن نہیں، کیونکہ اس کی بجلی مہنگی اور مالیاتی لحاظ سے چیلنج زدہ ہے۔
اسلام آباد میں توانائی کے شعبے میں اصلاحات سے متعلق ایک ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت توانائی کے شعبے میں گہرائی سے اصلاحات متعارف کروا رہی ہے، اور اس مقصد کے لیے ترقیاتی شراکت داروں کا تعاون بھی حاصل ہے۔
اویس لغاری کا کہنا تھا کہ حکومت بجلی کی خرید و فروخت کے عمل سے خود کو الگ کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے تاکہ نجی شعبے کو فعال بنایا جا سکے، تاہم انہوں نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ نجکاری کے عمل کے دوران صارفین کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ ہو۔
انہوں نے بتایا کہ کے-الیکٹرک کو فی یونٹ بجلی 39 روپے 97 پیسے کے اوسط ٹیرف پر فراہم کی جا رہی ہے، جبکہ دیامر بھاشا ڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی کی لاگت اس سے بھی کہیں زیادہ ہوگی، اور اس منصوبے کے لیے مطلوبہ مالی وسائل اب تک دستیاب نہیں ہو سکے۔
وفاقی وزیر نے اس بات کا اعتراف کیا کہ حکومت کے پاس گرڈ سے متعلق مکمل اور بروقت ڈیٹا موجود نہ ہونے کی وجہ سے بعض اوقات بجلی کی ترسیل میں مشکلات درپیش آتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان مسائل کے باعث حکومت کو گیس اور کوئلے سے بجلی کی پیداوار میں اضافے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے تاکہ بنیادی لوڈ کی ضروریات پوری کی جا سکیں۔
انہوں نے بلوچستان میں ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے منصوبے کا بھی ذکر کیا، جس کے تحت سالانہ 60 ارب روپے کی بچت ممکن ہو سکے گی۔ ان کے مطابق یہ اقدام نہ صرف بجلی کے شعبے پر مالی بوجھ کم کرے گا بلکہ پائیدار توانائی کے فروغ میں بھی مددگار ہوگا۔
یاد رہے کہ دیامر بھاشا ڈیم پاکستان کا ایک اہم آبی ذخیرہ منصوبہ ہے، جس پر کئی برسوں سے کام جاری ہے۔ تاہم، بجلی کی پیداواری لاگت اور مالی وسائل کی کمی نے اس منصوبے کی افادیت پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
دوسری جانب وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا ہے کہ حکومت بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے سرگرم ہے، صنعتی شعبے کے لیے ٹیرف میں 30 فیصد کمی کی جا چکی ہے، جبکہ شمسی توانائی سمیت متبادل ذرائع پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔