اگر ناانصافی ہو رہی ہو تو آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: جسٹس ہاشم کاکڑ

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

سپریم کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف کی رہنما صنم جاوید کی 9 مئی کے مقدمے سے بریت کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی۔

جسٹس ہاشم خان کاکڑ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ "اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں”۔

latest urdu news

حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ میں صنم جاوید کے ریمانڈ کے خلاف درخواست دائر کی گئی، جس میں عدالت نے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے ملزمہ کو مقدمے سے بری کر دیا۔

اس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ ان کیسز میں عدالت پہلے ہی ہدایت دے چکی ہے کہ چار ماہ میں فیصلہ کیا جائے، اب آپ یہ مقدمہ دوبارہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہائیکورٹ کے پاس مکمل اختیارات ہوتے ہیں، یہاں تک کہ اگر ہائیکورٹ کو محض ایک خط ملے جس میں ناانصافی کی نشاندہی ہو، تو بھی وہ کارروائی کرسکتی ہے۔

عدالت میں پنجاب حکومت کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات استعمال نہیں کر سکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے کہا کہ کریمنل ریویژن میں ہائیکورٹ کو سوموٹو اختیارات بھی حاصل ہوتے ہیں۔

صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ انہوں نے لاہور ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔

سماعت کے دوران جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا: "آپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟

جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت سب جانتے ہیں، اس کیس میں جو کچھ ہے، بہتر یہی ہے کہ ہم کچھ نہ بولیں۔

ان کا کہنا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کا جج فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، اور یہ فیصلہ غصے میں دیا گیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔

شیئر کریں:
frontpage hit counter