اسلام آباد، سپریم کورٹ میں جنگلات سے متعلق اراضی کیس کی سماعت کے دوران عدالتِ عظمیٰ نے تمام صوبوں اور وفاقی حکومت سے تفصیلی رپورٹس طلب کرلی ہیں۔
عدالت نے ہدایت دی کہ زیر قبضہ اور واگزار کرائی گئی زمینوں کی مکمل تفصیلات فراہم کی جائیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ اسلام آباد کی حدود سے متعلق تنازعے کا کیا بنا؟ سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ یہ معاملہ حل کر لیا گیا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ دنیا بھر میں جنگلات بڑھائے جا رہے ہیں جبکہ پاکستان میں کمی واقع ہو رہی ہے، ہمیں صرف رپورٹس نہیں بلکہ زمینی حقائق بھی دیکھنے ہیں۔ انہوں نے زیارت کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ منفی سترہ درجہ حرارت میں لوگ درخت نہ جلائیں تو کیا کریں؟ کیا حکومت ایسے علاقوں میں متبادل توانائی فراہم کر رہی ہے؟
سرکاری وکیل نے آگاہ کیا کہ زیارت میں ایل پی جی مہیا کی جا رہی ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ پہاڑی علاقوں میں رہنے والے کم آمدنی والے افراد کو کیا کوئی سبسڈی دی جا رہی ہے؟
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ عوام کو سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، 2018 سے اب تک صرف رپورٹس ہی جمع کروائی جا رہی ہیں۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے نشاندہی کی کہ سندھ میں سمندر ساحلی اراضی کو نگل رہا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے واضح کیا کہ درخت لگانا عدالت کا نہیں بلکہ متعلقہ اداروں کا کام ہے۔
مقدمے کی سماعت 5 رکنی بینچ نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں کی، جس کے بعد عدالت نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔