اسلام آباد، جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ دورانِ سماعت عدالت نے پوچھا کہ علی رضا پر الزام کیا ہے؟ ملزم کے وکیل، سمیر کھوسہ نے بتایا کہ ان پر صرف یہ الزام ہے کہ انہوں نے ایک پولیس اہلکار پر پتھر پھینکا، جس سے وہ زخمی ہوا۔
وکیل نے یہ بھی کہا کہ اسی کیس میں شامل ایک اور ملزم، زین العابدین، کو پہلے ہی ضمانت مل چکی ہے۔ اس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے تعجب سے سوال کیا کہ ایک ہی پولیس اہلکار کو بیک وقت دو افراد کیسے زخمی کر سکتے ہیں؟ عدالت نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ جب متعلقہ پولیس اہلکار زخمیوں کی فہرست میں شامل ہی نہیں، تو پھر الزام کس بنیاد پر لگایا گیا؟
پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے کہا کہ علی رضا پر کچھ دوسرے الزامات بھی ہیں، جس پر جسٹس کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ آپ تو ہر روز کوئی نیا الزام لے آتے ہیں۔
پراسیکیوٹر نے یہ بھی بتایا کہ سپریم کورٹ نے اس کیس کا ٹرائل چار ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت دی تھی۔ لیکن علی رضا کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ابھی تک صرف فردِ جرم عائد ہوئی ہے اور مقدمہ باقاعدگی سے نہیں چل رہا۔
سماعت کے دوران جسٹس ہاشم کاکڑ نے پراسیکیوٹر کو نرمی کا مشورہ دیتے ہوئے کہا، "جب کسی جونیئر وکیل کا کیس ہو تو زیادہ سختی نہ کیا کریں، آپ بھی کبھی جونیئر رہے ہیں۔ ضمانت ہونے دیں۔”
عدالت نے آخر میں علی رضا کو دو لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں پر رہا کرنے کا حکم جاری کر دیا۔