سیاسی بھرتیاں، کرپشن اور اقرباء پروری، پی آئی اے کا خسارہ 850 ارب روپے تک جا پہنچا

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد، ایک زمانے میں دنیا کی معروف ترین ایئر لائن کے طور پر پہچانی جانے والی پی آئی اے، جو پرکشش نعروں کے ساتھ کامیابی کی جانب گامزن تھی، آج 750 ارب سے بڑھ کر 850 ارب روپے کے خسارے میں ڈوب چکی ہے۔

قومی ایئر لائن کو ملکی خزانے پر بوجھ تصور کیا جا رہا ہے۔ حیران کن طور پر، خسارے کے باوجود مزید ایک ارب روپے خرچ کر کے پی آئی اے کی نجکاری کی کوشش کی گئی، لیکن ناکامی کے بعد دوبارہ فروخت کے لیے اسے بحالی کے عمل سے گزارا جا رہا ہے۔

latest urdu news

پی آئی اے نے دعویٰ کیا ہے کہ رواں سال اس کا سالانہ خسارہ 12 ارب روپے کم ہو جائے گا، لیکن اگر یہ دعویٰ درست ثابت ہوتا ہے، تو متوقع خسارہ ایک نئی قائم شدہ ہولڈنگ کمپنی کو منتقل کر دیا جائے گا۔

اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ پانچ سال میں پی آئی اے پر واجب الادا قرضوں میں 267 ارب روپے کا ریکارڈ اضافہ ہوا، جبکہ بینکوں سے لیے گئے قرضوں کی رقم 350 ارب روپے تک جا پہنچی ہے۔

گزشتہ سال، پی آئی اے کی نیلامی سے قبل ماہرین نے اس کے اندرون اور بیرون ملک اثاثوں کی مالیت 1.3 ارب ڈالر تک بتائی تھی۔ تاہم، حکومت نے نیلامی کی کم از کم بولی 85 ارب روپے مقرر کی، لیکن صرف 10 ارب روپے کی بولی موصول ہوئی۔

ہم انویسٹی گیٹس ٹیم کی تحقیقات کے مطابق، پی آئی اے جو کبھی اربوں روپے کے ملکی اور غیر ملکی اثاثوں کی مالک تھی، آج خریداروں کی عدم دلچسپی کا شکار ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر یہ نجکاری 33 سال قبل کی جاتی، تو ادارہ اس زبوں حالی کا شکار نہ ہوتا۔

عمران خان کا خط ججز آئینی کمیٹی کو بھجوایا دیا ہے، چیف جسٹس

قومی ایئر لائن کو کرپشن، بدانتظامی اور اقرباء پروری جیسے الزامات کا سامنا تو تھا ہی، لیکن اس کی ساکھ کو شدید نقصان اس وقت پہنچا جب سابق وفاقی وزیر برائے ہوا بازی، غلام سرور خان نے 2020 میں پارلیمنٹ میں پی آئی اے کے پائلٹس کی جعلی ڈگریوں کے حوالے سے بیان دیا۔ اس بیان کے نتیجے میں یورپی یونین نے چار سال تک پی آئی اے پر پابندی عائد رکھی۔

پی آئی اے کی تباہی کے پیچھے کئی وجوہات ہیں، جن میں سب سے بڑی وجہ سیاسی بھرتیوں کا رجحان ہے۔ 2008 سے 2015 کے دوران، ادارے میں 7 ہزار نئی بھرتیاں ہوئیں، جس سے ملازمین کی تعداد 6 ہزار سے بڑھ کر 13 ہزار تک جا پہنچی۔

دیگر ایئر لائنز کے مقابلے میں پی آئی اے میں ملازمین کی تعداد حد سے زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر، ترکش ایئر لائن کے 414 طیاروں کے لیے 37 ہزار ملازمین کام کرتے ہیں، جبکہ قطر ایئرویز کے 202 جہازوں کے لیے 50 ہزار اور اتحاد ایئرویز کے 79 جہازوں کے لیے 18,500 ملازمین ہیں۔ اس کے برعکس، پی آئی اے کے محض 28 آپریشنل طیاروں کے لیے 8 ہزار سے زائد ملازمین موجود ہیں۔

پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان کا مؤقف ہے کہ ادارے میں ملازمین کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، اور اب اسٹاف ضرورت کے مطابق ہے۔ ان کے مطابق، اس وقت فی طیارہ 250 ملازمین ہیں۔

2004 میں پی آئی اے کا مجموعی خسارہ ساڑھے 4 ارب روپے تھا، جو آج بڑھ کر 850 ارب روپے ہو چکا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں پی آئی اے مسلسل خسارے میں جا رہی ہے، وہیں گزشتہ 6 سالوں میں پاکستان میں 4 نئی ایئر لائنز متعارف ہو چکی ہیں۔

پی آئی اے کی نجکاری کے لیے حکومت نے ایک غیر ملکی فنانشل فرم کو 69 لاکھ ڈالر ادا کیے، جو نجکاری کے کسی بھی منصوبے کے لیے ادا کی جانے والی سب سے بڑی رقم ہے۔

عمر ایوب کا عام انتخابات، 26 ویں ترمیم کا معاملہ آئی ایم ایف کے سامنے اٹھانے کا اعلان

ہم انویسٹی گیٹس ٹیم کے مطابق، 2022 میں پی آئی اے کا مجموعی خسارہ 88 ارب روپے اور قرض 750 ارب روپے تک جا پہنچا تھا۔ پی آئی اے ترجمان کے مطابق، ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن، کورونا کے اثرات، اور روپے کی قدر میں کمی خسارے کی بڑی وجوہات ہیں۔

پی آئی اے کے بیرون ملک اثاثوں کی مالیت 1.3 ارب ڈالر بتائی جاتی ہے، تاہم نیویارک کا روزویلٹ ہوٹل مسلسل خسارے میں جا رہا ہے، پیرس کا سکرائب ہوٹل مالی مشکلات کا شکار ہے، جبکہ ہالینڈ میں پی آئی اے کی ایک قیمتی عمارت برسوں سے ناکارہ پڑی ہے۔

علاوہ ازیں، پی آئی اے کی تاریخ فضائی حادثات سے بھری پڑی ہے۔

26 مارچ 1965 کو پشاور سے چترال جانے والا طیارہ لواری پاس کے قریب گر کر تباہ ہوا، جس میں 22 افراد جاں بحق ہوئے۔ 20 مئی 1965 کو قاہرہ میں ایک اور حادثہ پیش آیا، جس میں 124 افراد ہلاک ہوئے۔

اوورسیز پاکستانیوں نےعمران خان کی سول نافرمانی کال پر’’ایبسلوٹلی ناٹ‘‘ کہہ دیا، بیرسٹر عقیل

اسی طرح، 25 اگست 1989 کو اسلام آباد سے گلگت جانے والا ایک طیارہ اپنی منزل پر نہ پہنچ سکا، اور آج تک اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ 28 ستمبر 1992 کو نیپال میں لینڈنگ کے دوران ایک اور حادثہ ہوا، جس میں 167 افراد جان کی بازی ہار گئے۔

یہ سب عوامل پی آئی اے کی زبوں حالی کی واضح مثالیں ہیں، اور اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ کبھی پاکستان کی شان سمجھی جانے والی ایئر لائن آج ایک بوجھ بن چکی ہے۔

شیئر کریں:
frontpage hit counter