سیاسی تاریخ کو اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں مذاکرات کا عمل ہمیشہ سے اہم رہا ہے، سیاستدانوں کو جب ذاتی مفادات کے لالے پڑتے ہیں تو مذاکرات کی طرف بھاگتے ہیں پھر تمام تر اختلافات کو بھلا دیتے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو مذاکرات کا عمل ہمیشہ اہم رہا ہے۔ تاہم، یہ عمل زیادہ تر سیاستدانوں کے ذاتی مفادات کے گرد گھومتا نظر آتا ہے۔ جب سیاستدانوں کو ذاتی مسائل کا سامنا ہوتا ہے، تو وہ تمام تر اختلافات کو بھلا کر مذاکرات کی میز پر پہنچ جاتے ہیں۔ عوامی مسائل پر اتفاق رائے کی کمی ان کے رویے کی واضح عکاسی کرتی ہے۔ مثلاً اسمبلیوں کے اراکین کی تنخواہوں میں اضافے پر کبھی کوئی اختلاف نہیں ہوتا، لیکن عوامی مسائل جیسے مہنگائی، تعلیم، صحت اور بے روزگاری کے حل کے لیے وہ اکٹھے نہیں ہوتے۔
حالیہ مذاکرات، جو حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان ہو رہے ہیں، اسی سوال کو جنم دیتے ہیں کہ کیا یہ مذاکرات واقعی عوام کے مفاد میں ہیں یا سیاستدانوں کے ذاتی مفادات کے لیے کیے جا رہے ہیں؟ تحریک انصاف کی جانب سے بانی پارٹی کی رہائی اور دیگر سیاسی قیدیوں کی آزادی جیسے مطالبات سامنے آئے ہیں، جو کہ ان کے سیاسی مستقبل کو محفوظ بنانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ دیگر سیاسی جماعتوں کی صورتحال بھی مختلف نہیں، جن کی ترجیحات میں عوامی مسائل نہیں بلکہ ذاتی ایجنڈے شامل ہوتے ہیں۔
پاکستان اس وقت شدید اقتصادی و معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ افراطِ زر، بے روزگاری، توانائی بحران، اور صحت و تعلیم کی سہولتوں کی کمی عوام کی زندگی کو مزید مشکلات میں دھکیل رہی ہے۔ نوجوانوں کی مایوسی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ بیرون ملک جانے کے خواب دیکھنے پر مجبور ہیں۔ اس صورتحال میں سیاستدانوں کا رویہ افسوسناک ہے، جو اپنی اقتدار کی جنگ اور ذاتی مفادات کے حصول میں مصروف ہیں۔
یہ وقت ہے کہ سیاستدان عوامی مفادات کو اولین ترجیح دیں۔ معیشت کی بحالی، اچھی طرز حکمرانی، میرٹ کی بحالی، اور انصاف کے نظام میں اصلاحات جیسے موضوعات پر سنجیدگی سے غور کریں۔ اگر سیاستدان اپنے رویے میں تبدیلی نہیں لاتے تو عوام کا اعتماد مکمل طور پر ختم ہو جائے گا، جو ملک کو مزید بحرانوں میں دھکیل دے گا۔ سیاستدانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کی بقا عوامی مسائل کے حل سے ہی ممکن ہے، ورنہ ان کا سیاسی مستقبل بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔