ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کون ہیں؟ کس قدر با اثر ہیں؟

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

ایران ایک ایسا ملک ہے جہاں سیاسی اور مذہبی قیادت آپس میں گہری جُڑی ہوئی ہے۔ اس نظام کا مرکز ہے رہبرِ اعلیٰ یا سپریم لیڈر — ایک ایسا عہدہ جو نہ صرف مذہبی اعتبار سے اہمیت رکھتا ہے بلکہ عملی طور پر ریاست کا سب سے طاقتور منصب بھی ہے۔ آیت اللہ علی خامنہ ای 1989 سے اب تک اس عہدے پر فائز ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران کی سب سے بااثر شخصیت تصور کیے جاتے ہیں۔ امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق، حالیہ ایران اسرائیل کشیدگی کے دوران سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آیت اللہ علی خامنہ ای کو نشانہ بنانے سے متعلق اسرائیل کا ایک خفیہ منصوبہ یہ کہہ کر رد کر دیا کہ یہ ’’اچھا خیال نہیں‘‘۔

latest urdu news

تعارف

آیت اللہ علی خامنہ ای 1939 میں ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد میں ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر ہیں اور ان کے والد متوسط درجے کے شیعہ عالمِ دین تھے۔ بچپن ہی سے مذہبی تعلیمات سے وابستہ ہو گئے اور محض 11 برس کی عمر میں اُنہیں باقاعدہ طور پر ایک عالمِ دین کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ اُن کے دور کے کئی علما کی طرح، خامنہ ای کا کردار صرف مذہبی نہیں بلکہ سیاسی بھی تھا۔ ایک پُرجوش خطیب کے طور پر وہ جلد ہی شاہِ ایران کی آمریت کے کھلے ناقد بن گئے، جس کے باعث وہ کئی سال روپوش رہے، متعدد بار گرفتار ہوئے اور شاہی خفیہ پولیس کے ہاتھوں سختیاں برداشت کیں، یہاں تک کہ چھ مرتبہ قید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ 1979 میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد جب شاہ کا اقتدار ختم ہوا تو خامنہ ای نمایاں مذہبی شخصیات میں سے ایک کے طور پر ابھرے۔ انقلاب کے فوراً بعد، 1980 میں آیت اللہ خمینی نے اُنہیں تہران کی مرکزی جمعے کی نماز کی امامت سونپی، جو اُن کے سیاسی سفر میں ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوئی۔ 1981 میں وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر منتخب ہوئے اور بالآخر 1989 میں آیت اللہ خمینی کے انتقال کے بعد مذہبی رہنماؤں نے اُنہیں ایران کا دوسرا سپریم لیڈر منتخب کر لیا، ایک ایسا منصب جس پر وہ آج بھی فائز ہیں۔

آیت اللہ علی خامنہ ای کی 1987 میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران لی گئی تصویر۔

آیت اللہ علی خامنہ ای کی 1987 میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران لی گئی تصویر۔

اختیارات اور اثر و رسوخ

ایران میں سپریم لیڈر کا عہدہ محض علامتی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اسے ریاست کا سب سے طاقتور منصب تصور کیا جاتا ہے۔ آئینی طور پر سپریم لیڈر کو بے پناہ اختیارات حاصل ہیں جو ریاست کے تقریباً تمام اہم اداروں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ وہ ایرانی مسلح افواج، پاسدارانِ انقلاب (IRGC) اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہ ہوتے ہیں اور جنگ یا امن کا اعلان کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ عدلیہ، سرکاری میڈیا اور گارڈین کونسل کے اہم عہدے داران کا تقرّر بھی انہی کے ہاتھ میں ہے، اور یہی گارڈین کونسل انتخابات میں امیدواروں کو نااہل یا اہل قرار دینے کی مجاز ہے۔ خارجہ پالیسی کے میدان میں بھی، اگرچہ عملی سطح پر صدر اور وزیر خارجہ سرگرم رہتے ہیں، مگر حتمی فیصلہ سازی سپریم لیڈر کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای ایران کے سب کے طاقتور شخص کے طور پر جانے جاتے ہیں

آیت اللہ خامنہ ای ایران کے سب کے طاقتور شخص کے طور پر جانے جاتے ہیں

اسرائیل ایران کشیدگی میں آیت اللہ خامنہ ای کا کردار

ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی کوئی نئی بات نہیں، تاہم حالیہ برسوں میں یہ تنازع کھلی محاذ آرائی کے قریب آ چکا ہے۔ اس کشیدہ ماحول میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کا کردار فیصلہ کن اور گہرے اثرات کا حامل رہا ہے۔ ان کی قیادت میں ایران نے خطے میں اپنی عسکری اور نظریاتی حکمت عملی کو جس انداز سے پروان چڑھایا، اس نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو مکمل دشمنی میں تبدیل کر دیا۔

نظریاتی بنیادیں اور ریاستی پالیسی

آیت اللہ خامنہ ای اسرائیل کو "غاصب صیہونی ریاست” قرار دیتے ہیں اور مسلسل یہ مؤقف دہراتے آئے ہیں کہ اسرائیل کا وجود مسلمانوں کے لیے خطرہ ہے۔ ان کے مطابق فلسطین کی آزادی "امتِ مسلمہ” کا دینی، اخلاقی اور سیاسی فریضہ ہے۔ اس نظریے نے نہ صرف ایرانی ریاستی بیانیے کو متاثر کیا بلکہ عملی اقدامات کی بنیاد بھی فراہم کی۔

جوہری پروگرام اور اسرائیل سے کشیدگی

ایران کے جوہری پروگرام پر اسرائیل شدید تحفظات رکھتا ہے، جبکہ خامنہ ای کی قیادت میں ایران نے بارہا یہ مؤقف اپنایا ہے کہ اس کا نیوکلیئر پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم، خامنہ ای کی جانب سے امریکہ اور اسرائیل پر عدم اعتماد، جوہری معاہدے (JCPOA) پر تنقید، اور یورینیم کی افزودگی میں مسلسل اضافہ، اسرائیل کے لیے خطرے کی گھنٹی بنا رہا ہے۔ اسرائیل کئی بار ایران کی جوہری تنصیبات پر سائبر حملے یا محدود فضائی کارروائیاں بھی کر چکا ہے۔

حالیہ تنازعات میں موقف اور ردعمل

2024 اور 2025 کے دوران ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی ایک خطرناک سطح تک پہنچی، جب ایران نے شام میں موجود ایرانی جنرلز پر اسرائیلی حملوں کے جواب میں براہ راست اسرائیل کی جانب ڈرونز اور میزائل داغے۔ یہ ایرانی کارروائی آیت اللہ خامنہ ای کی منظوری سے ہوئی، جس کے بعد ایرانی میڈیا نے اسے "اسلامی مزاحمت کی فتح” قرار دیا۔ خامنہ ای نے اس حملے کو "ایک سبق” قرار دیتے ہوئے اسرائیل کو خبردار کیا کہ اگر جارحیت جاری رہی تو ردعمل اس سے بھی سخت ہو گا۔

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter