یہ جان کر آپ حیران ہوں گے کہ 1950 میں ایران، غاصب اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے والا دوسرا اسلامی ملک تھا۔
اگرچہ ایران نے ابتدا میں فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کی مخالفت کی تھی، جس کی وجہ سے سنہ 1948 میں اسرائیل کی ریاست قائم ہوئی تھی، لیکن مصر کے بعد ایران دوسرا اسلامی ملک تھا جس نے اسے تسلیم کیا۔ اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد ایران اور اسرائیل کے تعلقات نسبتاً دوستانہ اور تعاون پر مبنی تھے۔ اس دور میں ایران کے شاہ رضا پہلوی کی حکومت نے اسرائیل کو بطور ایک مفاداتی شراکت دار تسلیم کیا تھا۔ دونوں ممالک نے مشترکہ اقتصادی، فوجی اور سیکیورٹی منصوبوں پر کام کیا، جن میں جدید ہتھیاروں کی تیاری اور دفاعی ٹیکنالوجی کی ترقی شامل تھی۔ ایران نے اسرائیل کو تیل فراہم کیا، جبکہ اسرائیل نے ایران کو زراعت، فوجی تربیت اور جدید ٹیکنالوجی میں مدد دی۔
پروجیکٹ فلاور: اسرائیل اور ایران کے درمیان ماضی کی حیرت انگیز حقیقت
پروجیکٹ فلاور (Project Flower) اسرائیل اور ایران کے درمیان ایک ایسا خفیہ عسکری منصوبہ تھا جو آج دونوں ممالک کی موجودہ دشمنی کے تناظر میں ماضی کی حیرت انگیز حقیقت بن چکا ہے۔ 1970 کی دہائی کے اواخر میں، ایران کے شاہ محمد رضا پہلوی اور اسرائیل کی قیادت کے درمیان خفیہ تعلقات اس قدر مضبوط تھے کہ دونوں نے مشترکہ طور پر ایک جدید میزائل نظام تیار کرنے کا معاہدہ کیا۔ اس منصوبے کا مقصد جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد پر لمبے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل تیار کرنا تھا، تاکہ ایران اور اسرائیل اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط کر سکیں۔ پروجیکٹ فلاور میں اسرائیل تکنیکی مہارت اور ڈیزائن فراہم کر رہا تھا، جبکہ ایران مالی معاونت کے ساتھ ساتھ میزائلوں کی تیاری کے لیے بنیادی ڈھانچہ مہیا کر رہا تھا۔ اس منصوبے کے تحت جدید سطح سے سطح پر مار کرنے والے میزائلوں کی ایک سیریز تیار کی جانی تھی، جو خطے میں طاقت کا توازن ایران اور اسرائیل کے حق میں کر سکتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ منصوبہ اتنا خفیہ تھا کہ اس کی تفصیلات صرف اعلیٰ سطحی فوجی اور حکومتی شخصیات تک محدود تھیں۔

پروجیکٹ فلاور: اسرائیل اور ایران کے درمیان ماضی کی حیرت انگیز حقیقت
ایرانی انقلاب (1979): دوستی دشمنی میں بدل گئی
1979 میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں برپا ہونے والے اسلامی انقلاب نے ایران کی سیاست، خارجہ پالیسی اور عالمی تعلقات کی سمت کو مکمل طور پر بدل دیا۔ شاہ محمد رضا پہلوی کی مغرب نواز حکومت کے خاتمے کے بعد ایران ایک اسلامی ریاست بن گیا۔ آیت اللہ خمینی نے اسرائیل کو ایک "غاصب ریاست” اور "چھوٹا شیطان” قرار دیا، جو اسلامی دنیا کے خلاف مغربی سازشوں کی علامت ہے۔ انقلاب کے فوراً بعد ایران نے اسرائیل کے ساتھ ہر قسم کے سفارتی، اقتصادی اور عسکری تعلقات ختم کر دیے، جو شاہ کے دور میں نہایت قریبی تھے۔ ایران نے مسئلہ فلسطین کی بھرپور حمایت شروع کر دی۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری خونی دشمنی مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کا ایک مستقل اور خطرناک پہلو بنی ہوئی ہے۔ یہ دشمنی صرف نظریاتی اختلافات تک محدود نہیں بلکہ اس کے پیچھے گہرے جغرافیائی، سیاسی اور اسٹریٹیجک عوامل کارفرما ہیں، جو وقتاً فوقتاً اس کشیدگی کو کم یا زیادہ کرتے رہتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تنازعات، پراکسی جنگوں اور عسکری جھڑپوں نے پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر رکھا ہے۔ ایران-اسرائیل تنازعہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹوں میں سے ایک تصور کیا جاتا ہے۔

ایرانی انقلاب (1979): دوستی دشمنی میں بدل گئی
ایران کا جوہری پروگرام، ابتدا میں امریکہ کا تعاون، موجودہ اسرائیلی تشویش
1950 کی دہائی میں امریکہ کی "Atoms for Peace” پالیسی کے تحت شروع ہونے والے ایران کے جوہری پروگرام کو ابتدا میں مغرب اور امریکہ کی حمایت حاصل تھی۔ تاہم، 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد مغرب اور ایران کے تعلقات میں سرد مہری آ گئی اور جوہری تعاون ختم کر دیا گیا۔ ایران کا جوہری پروگرام عالمی سطح پر کئی دہائیوں سے ایک متنازع معاملہ رہا ہے۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ گہری تشویش اور ردعمل اسرائیل کی جانب سے دیکھنے میں آیا ہے۔ اسرائیل ایران کے جوہری عزائم کو محض ایک علاقائی خطرہ نہیں بلکہ اپنی قومی بقا کے لیے ایک "وجودی خطرہ” (Existential Threat) قرار دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کی جانب سے جوہری توانائی کے حصول کی ہر کوشش اسرائیل کے لیے ایک ریڈ لائن کی حیثیت رکھتی ہے۔

ایران کا جوہری پروگرام، ابتدا میں امریکہ کا تعاون، موجودہ اسرائیلی تشویش
کشیدگی میں شدت: علاقائی تبدیلیاں اور براہِ راست تصادم
ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کی تاریخ کئی دہائیوں پر محیط ہے، مگر کشیدگی کی موجودہ لہر کے بعد اس تنازعے نے ایک نئی اور خطرناک صورت اختیار کر لی ہے۔ جہاں ماضی میں یہ دشمنی زیادہ تر پراکسی جنگوں، بیانات اور انٹیلیجنس کارروائیوں تک محدود تھی، اب یہ براہِ راست عسکری تصادم میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اس تبدیلی کے پیچھے کئی علاقائی اور سیاسی عوامل کارفرما ہیں، جنہوں نے مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کے توازن کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
ابراہام معاہدے اور خطے کی سیاسی تبدیلی
2020 میں امریکہ کی ثالثی سے متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے، جنہیں "ابراہام معاہدے” (Abraham Accords) کہا جاتا ہے۔ ان معاہدوں نے خطے میں طاقت کے روایتی توازن کو چیلنج کیا۔ ایران نے ان معاہدوں کو نہ صرف مسئلہ فلسطین سے غداری قرار دیا بلکہ اسے اسرائیل کے اثر و رسوخ کو خطے میں بڑھانے کی خطرناک کوشش بھی کہا۔ اس کے ردعمل میں ایران نے اپنے اتحادیوں پر مشتمل "محورِ مزاحمت” (Axis of Resistance) کو فعال اور مستحکم کرنے کے اقدامات تیز کر دیے۔
یہ محور مبینہ طور پر حزب اللہ (لبنان)، حماس (فلسطین)، حوثی تحریک (یمن)، عراقی شیعہ ملیشیاؤں اور شامی حکومت پر مشتمل ہے۔ ایران نے ان گروپوں کو عسکری، مالی اور انٹیلیجنس سطح پر مدد فراہم کی تاکہ اسرائیل کے خلاف دباؤ بڑھایا جا سکے۔ ان پراکسی قوتوں نے مختلف محاذوں پر اسرائیلی مفادات کو نشانہ بنایا، جبکہ اسرائیل نے جوابی کارروائیوں کے دوران ایران کے ان حامیوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔

ایران کا جوہری پروگرام، ابتدا میں امریکہ کا تعاون، موجودہ اسرائیلی تشویش
2024–2025: براہِ راست تصادم کا آغاز
2024 اور 2025 کے درمیانی عرصے میں ایران اور اسرائیل کے تعلقات اپنی انتہائی کشیدہ ترین حالت میں داخل ہو گئے۔ کئی ایسی کارروائیاں ہوئیں جنہیں پہلے پراکسی یا خفیہ کہا جاتا تھا، مگر اب ان میں کھلے اور براہِ راست حملے شامل ہو چکے ہیں۔
ایران پر اسرائیلی حملے
اسرائیل نے متعدد بار ایران کے جوہری پروگرام سے جُڑے سائنسدانوں، تنصیبات اور اعلیٰ فوجی کمانڈروں کو ہدف بنایا۔ 2024 کے اواخر میں ایران کے معروف جوہری سائنسدانوں کو مشکوک حملوں میں قتل کیا گیا، جن کا الزام اسرائیل پر لگا۔ اسی طرح ایران کے انقلابی گارڈز (IRGC) کے اعلیٰ افسران کو عراق اور شام میں ڈرون حملوں میں نشانہ بنایا گیا۔ ایران کا کہنا ہے کہ یہ حملے اسرائیل کی انٹیلیجنس ایجنسی موساد کی کارروائیوں کا نتیجہ تھے، جن کا مقصد ایران کی دفاعی صلاحیتوں کو کمزور کرنا اور جوہری پروگرام کو سست کرنا تھا۔

ایران پر اسرائیلی حملے
ایرانی ردعمل: میزائل اور ڈرون حملے
ایران نے اسرائیلی حملوں کا جواب براہِ راست میزائل اور ڈرون حملوں کی صورت میں دیا۔ ان حملوں میں اسرائیلی دعوؤں کے مطابق زیادہ تر میزائل دفاعی نظام نے ناکام بنا دیے، مگر بعض حملوں سے نقصانات اور جانی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ ایران کا مؤقف تھا کہ یہ حملے اس کی خودمختاری اور قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے کیے گئے، اور اگر اسرائیل نے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں تو جواب مزید سخت ہوگا۔

ایرانی ردعمل: میزائل اور ڈرون حملے
عالمی ردعمل اور خطرات
ایران اور اسرائیل کے درمیان 2020 کے بعد تیزی سے بڑھتی ہوئی کشیدگی نے مشرقِ وسطیٰ کو ایک نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ علاقائی اتحادوں کی تبدیلی، خفیہ کارروائیوں کی شدت، اور اب براہِ راست فوجی حملے اس بات کی علامت ہیں کہ یہ تنازعہ کسی بھی وقت ایک بڑی جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے عالمی سطح پر بھی تشویش پیدا کی۔ امریکہ نے روایتی طور پر اسرائیل کی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے، مگر دونوں فریقین کو تحمل سے کام لینے کی تلقین بھی کی۔ یورپی ممالک، اقوامِ متحدہ، چین و روس اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک نے اس تنازعے کو فوری سفارتی حل دینے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ خطہ کسی بڑی جنگ کی لپیٹ میں نہ آ جائے۔