روس نے یوکرین میں نیٹو کی زیرقیادت امن فوج کی تعیناتی سے متعلق یوکرین اور یورپی رہنماؤں کی تجویز کو دوٹوک انداز میں مسترد کر دیا ہے۔
روسی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ ایسی کسی بھی صورتحال کو قبول نہیں کریں گے جس میں یوکرینی فوج کے ساتھ نیٹو افواج شامل ہوں۔
یہ مؤقف روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ایک طویل ٹیلیفونک گفتگو کے دوران بھی دہرایا۔ 40 منٹ جاری رہنے والی اس گفتگو کو روسی صدارتی مشیر یوری اوشاکوف نے "تعمیری اور بے تکلف” قرار دیا۔
گفتگو کے دوران صدر پیوٹن نے عندیہ دیا کہ وہ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی سے براہِ راست ملاقات کے لیے تیار ہیں، جس کی ممکنہ تاریخ اگست کے آخر میں متوقع ہے۔ ملاقات کی جگہ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
صدر ٹرمپ نے روس-یوکرین تنازع کے حل کے لیے براہ راست بات چیت کی حمایت کی اور کہا کہ اگر مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو امریکا، یوکرین کی سلامتی کی ضمانت کے لیے یورپی اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔
پیوٹن یوکرینی صدر سے ملاقات کے لیے تیار، روسی و امریکی صدور کی اہم ٹیلیفونک گفتگو
ٹرمپ کے مطابق، یورپی ممالک یوکرین کو سکیورٹی یقین دہانیاں فراہم کریں گے، جبکہ امریکا بھی ان کوششوں میں شریک ہوگا۔ تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا امریکی فوج بھی امن فوج میں شامل ہوگی؟ تو صدر ٹرمپ نے کہا: "یورپ پہلی دفاعی لائن ہے کیونکہ وہ خطے میں موجود ہے، لیکن امریکا بھی اس کوشش میں شراکت دار ہوگا۔”
صدر ٹرمپ نے اس سے قبل یوکرینی صدر زیلنسکی اور یورپی رہنماؤں سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی تھی، جنہیں انہوں نے "انتہائی مفید” قرار دیا۔ ان ملاقاتوں کے دوران ایک تجویز یہ بھی سامنے آئی کہ یورپی قیادت میں ایک بین الاقوامی امن فوج یوکرین میں تعینات کی جائے تاکہ روس کو دوبارہ حملے سے روکا جا سکے۔
تاہم روس کا ردعمل واضح ہے: "یوکرین میں نیٹو کی موجودگی کسی صورت قابل قبول نہیں۔”