اسرائیلی وزیر دفاع کا رفح کے ملبے پر نیا کیمپ بسانے کا اعلان، لاکھوں فلسطینیوں کی جبری منتقلی کا منصوبہ، عالمی سطح پر شدید ردعمل
مقبوضہ بیت المقدس سے موصولہ اطلاعات کے مطابق اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے غزہ کے تمام فلسطینیوں کو جبری طور پر بے دخل کر کے رفح کے تباہ حال ملبے پر ایک کیمپ میں منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے، جسے انہوں نے ’’انسانی ہمدردی کا شہر‘‘ قرار دیا ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق یہ منصوبہ ابتدائی طور پر 6 لاکھ فلسطینیوں کو کیمپ میں منتقل کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے، جہاں ان کے داخلے سے قبل سیکیورٹی اسکریننگ کی جائے گی اور بعد ازاں انہیں باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
کاٹز کے مطابق اسرائیلی افواج کیمپ کے اردگرد مکمل کنٹرول سنبھالیں گی اور منصوبے کا مقصد پورے غزہ کی آبادی کو اسی علاقے میں مرتکز کرنا ہے تاکہ ہجرت کے اسرائیلی منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔ اس اعلان کے بعد انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور ماہرین کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے، جن کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ جبری نقل مکانی کے زمرے میں آتا ہے اور انسانیت کے خلاف سنگین جرم ہے۔
اسرائیلی انسانی حقوق کے وکیل مائیکل سفارد نے کاٹز کے بیان کو بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نوعیت کی جبری ہجرت جنگی جرم ہے، اور جب یہ بڑے پیمانے پر ہو، تو یہ انسانیت کے خلاف جرم بن جاتا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ صرف چند گھنٹے قبل اسرائیلی فوجی قیادت نے کہا تھا کہ فلسطینیوں کو محض حفاظت کے پیشِ نظر منتقل کیا جا رہا ہے، مگر اب وزیر دفاع کے بیانات سے واضح ہو گیا ہے کہ اصل مقصد مکمل جبری منتقلی ہے۔
کل کے بعد غزہ حماس کے بغیر ہوگا، اسرائیل کا اعلان
پروفیسر آموس گولڈبرگ، جو یروشلم یونیورسٹی میں ہولوکاسٹ کے ماہر ہیں، نے کہا کہ کاٹز کا نیا منصوبہ ’’انسانی ہمدردی کا شہر‘‘ نہیں بلکہ ایک قید خانہ ہے، جہاں نہ روزگار ہے، نہ نقل و حرکت کی آزادی، اور نہ ہی بنیادی شہری سہولیات۔
واضح رہے کہ اس منصوبے کی جڑیں اس تجویز میں موجود ہیں جو رواں سال کے آغاز میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دی گئی تھی، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ فلسطینیوں کو غزہ سے نکل جانا چاہیے تاکہ علاقے کو ’’صاف‘‘ کیا جا سکے۔ نیتن یاہو اور اسرائیلی کابینہ نے اس منصوبے کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اسے ’’امریکی تعاون‘‘ کا حصہ قرار دے کر اس پر تیزی سے عمل درآمد کا آغاز کر دیا ہے۔
یاد رہے کہ جبری بے دخلی اور نسلی صفائی کے ایسے منصوبے نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ خطے میں ایک نیا انسانی بحران جنم دے سکتے ہیں۔ بین الاقوامی برادری، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں پر اس وقت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس ممکنہ جرم کے خلاف واضح اور مؤثر مؤقف اختیار کریں۔