ریاست کرناٹک کی حکومت نے خواتین کے لیے ماہواری کے دوران سالانہ 12 دن کی ادا شدہ رخصت دینے کی پالیسی منظور کر لی ہے، جس کا اطلاق سرکاری اور نجی دونوں شعبوں پر ہو گا۔ یہ فیصلہ جہاں خواتین کے لیے ایک مثبت اور صحت مند قدم کے طور پر سراہا جا رہا ہے، وہیں کچھ حلقوں میں مردوں کی بے چینی اور تحفظات بھی سامنے آ رہے ہیں۔
خواتین کے لیے ایک تاریخی قدم
ماہواری کے دوران درد اور جسمانی تکلیف کو تسلیم کرتے ہوئے کرناٹک کی حکومت نے اس پالیسی کو نافذ کیا ہے تاکہ خواتین کام کے دوران اپنی صحت کو ترجیح دے سکیں۔ اس اقدام کو صنفی حساسیت پر مبنی ورک کلچر کی جانب ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ کرناٹک اس حوالے سے پہلا نہیں، بلکہ بہار، اوڈیشہ اور کیرالہ جیسی ریاستیں پہلے ہی اس قسم کی چھٹیاں متعارف کرا چکی ہیں، تاہم کرناٹک میں اس پالیسی کی وسعت اور سرکاری سرپرستی اسے منفرد بناتی ہے۔
مردوں کی رائے: حمایت بھی، الجھن بھی
انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق، جب مردوں سے براہ راست بات کی گئی تو زیادہ تر نے اس پالیسی کی حمایت کی اور اسے صحت کے مسائل کو تسلیم کرنے والا اہم قدم قرار دیا۔ کئی مردوں کا کہنا تھا کہ یہ اقدام دیر سے آیا لیکن درست سمت میں ہے۔
تاہم، آن لائن پلیٹ فارمز اور سوشل میڈیا پر مردوں کی رائے میں شدید تنقید بھی دیکھی گئی۔ کچھ مردوں نے اسے "کم پیداواری” اور "دفاتر میں خواتین کی موجودگی کو بوجھ” قرار دیا۔ چند انتہاپسند آراء میں خواتین کو روایتی کرداروں میں محدود رکھنے کی بات بھی کی گئی۔
خواتین میں بھی ملا جلا ردعمل
- اگرچہ بیشتر خواتین نے اس پالیسی کو خوش آئند قرار دیا، لیکن کچھ خواتین نے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
- بعض کو ڈر ہے کہ ایسی رخصت لینے سے انہیں "کمزور یا غیر پیشہ ور” سمجھا جا سکتا ہے۔
- کچھ کو رازداری کے مسائل کا سامنا ہے — مثلاً دفتر میں سب کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس وجہ سے چھٹی پر ہیں۔
- بعض خواتین کو خدشہ ہے کہ کمپنیاں اب ایسی خواتین کی بھرتی میں ہچکچائیں گی جنہیں سال میں 12 دن اضافی چھٹی ملتی ہو۔
اصل مسئلہ پالیسی نہیں، سوچ ہے
ہیومن ریسورس کنسلٹنٹ سوریا شیکھر دیب ناتھ کے مطابق، یہ رخصت کوئی "رعایت” نہیں بلکہ صحت کی بنیادی ضرورت ہے، جیسے والدین کی چھٹیاں یا ذہنی صحت کے دن دیے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق کئی کمپنیوں نے یہ پالیسی پہلے سے اپنائی ہوئی ہے اور اس کا پیداواری صلاحیت پر منفی اثر نہیں پڑا۔
ان کا ماننا ہے کہ اصل مسئلہ انتظامی نہیں بلکہ سماجی ہے۔ جب تک معاشرے میں آگاہی، تعلیم اور تعاون فروغ نہیں پائے گا، ایسی پالیسیاں صرف کاغذ پر رہ جائیں گی۔