ہنگری، گانا فلمی صنعت کا اہم حصہ ہے، جو محض پیار محبت کے اظہار تک محدود نہیں بلکہ خوشی، یادگار لمحات اور پرمسرت یادوں کو مزید معنی خیز بنانے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔
تاہم تاریخ میں ایک ایسا گانا بھی موجود ہے جس نے اپنی دُکھ بھری دھن اور غمزدہ شاعری کی وجہ سے دنیا بھر میں خوف اور افسوس کی فضا پیدا کر دی، یہ گانا ہے "گلومی سنڈے”۔
یہ گانا 1933 میں ہنگری کے موسیقار”ریژوس سریس“ نے اُس وقت لکھا جب ان کی محبوبہ نے انہیں چھوڑ دیا۔ اس کا مقصد اپنے دل کے درد کو شاعری اور موسیقی کے ذریعے بیان کرنا تھا، لیکن نتیجہ ناقابلِ یقین حد تک خوفناک نکلا۔
رپورٹس کے مطابق گانے کی شاعری اس قدر افسردہ اور دل کو چھو لینے والی تھی کہ کئی افراد نے یہ سن کر خودکشی کر لی۔ اس گانے کو بعد ازاں ہنگرین سوسائیڈ سانگ کے نام سے پکارا جانے لگا، ابتدا میں متعدد گلوکاروں نے اسے گانے سے انکار کر دیا، تاہم 1935 میں یہ گانا ریلیز ہوا اور ریلیز ہوتے ہی خودکشیوں کی ایک لہر چل پڑی۔
ایک رپورٹ کے مطابق، ہنگری میں گانا سننے کے بعد خودکشیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا، اور بعض کیسز میں تو خودکشی کرنے والے کے پاس یہ گانا چل رہا ہوتا، ابتدائی طور پر 17 اموات رپورٹ ہوئیں، جو بعد ازاں تقریباً 100 تک پہنچ گئیں۔
صورتحال اس حد تک سنگین ہو گئی کہ1941 میں حکومت کو گانے پر باقاعدہ پابندی عائد کرنا پڑی، مگر یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی، پابندی کے باوجود یہ گانا زیرِ بحث رہا اور 2003 میں اس پر سے سرکاری پابندی ہٹا دی گئی، لیکن اس کے بعد بھی کئی افسوسناک واقعات سامنے آئے۔
بدقسمتی سے خود گانے کے خالق ریژوس سریس نے بھی اپنی زندگی اسی دن ختم کی، جس کا ذکر انہوں نے گانے کے عنوان میں کیا تھا، "سنڈے”، پہلے وہ عمارت سے کودے، پھر اسپتال لے جائے گئے، جہاں بعد ازاں انہوں نے پھانسی لے کر خودکشی کر لی۔
دلچسپ اور الم ناک پہلو یہ ہے کہ اس گانے کو اب تک 28 زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے اور دنیا بھر کے 100 سے زائد گلوکار اس کو گا چکے ہیں۔
یہ گانا ہمیں یاد دلاتا ہے کہ موسیقی میں جذبہ کس قدر طاقتور ہو سکتا ہے، اور بعض اوقات، یہ طاقت بے حد خطرناک بھی ثابت ہوسکتی ہے۔