اسلام آباد: پاکستان اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان سات ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کی اگلی قسط کے حوالے سے اہم مذاکرات آج متوقع ہیں، جو ملک کی معاشی بحالی کے لیے فیصلہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ مذاکرات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب جنوبی ایشیا میں صورتحال خاصی کشیدہ ہو چکی ہے۔
ذرائع کے مطابق، مذاکرات میں پاکستان کی اقتصادی کارکردگی، محصولات میں اضافہ، سبسڈی اصلاحات اور غیر ضروری حکومتی اخراجات جیسے نکات زیر بحث آئیں گے۔ پاکستان کو امید ہے کہ اس قسط کی منظوری سے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا ملے گا اور مہنگائی میں کمی آئے گی۔
سرحدی کشیدگی کا ممکنہ اثر
اس وقت خطے میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات شدید تناؤ کا شکار ہیں۔ گزشتہ رات متعدد علاقوں میں بجلی کی معطلی اور اچانک بلیک آؤٹ کی اطلاعات موصول ہوئیں، جنہیں بعض ماہرین سیکیورٹی اقدامات سے جوڑ رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان نے مبینہ طور پر بھارتی فوجی اڈوں پر ڈرون اور میزائل حملے کیے ہیں، تاہم پاکستانی دفتر خارجہ نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔
بھارت کی کوششیں اور عالمی بینک کی پوزیشن
بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ بھارت آئی ایم ایف کے بورڈ کو پاکستان کو ملنے والے پچھلے بیل آؤٹس کے نتائج کا سنجیدہ جائزہ لینے کا مشورہ دے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت اپنے خدشات باضابطہ طور پر عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے رکھے گا۔
اسی دوران، عالمی بینک کے صدر اجے بانگا نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی ہے۔ ملاقات کے دوران سندھ طاس معاہدے کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔
تاہم، عالمی بینک نے اپنے مؤقف میں واضح کیا ہے کہ وہ اس معاہدے میں صرف ایک سہولت کار کا کردار ادا کرتا ہے، اور اسے معطل کرنے کا اختیار نہ بھارت کے پاس ہے نہ ہی خود عالمی بینک کے پاس۔
اجے بانگا نے بھارتی نیوز چینل CNBC-TV18 کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ سندھ طاس معاہدے کو یا تو مکمل طور پر ختم کیا جا سکتا ہے یا کسی نئے معاہدے کے ذریعے تبدیل کیا جا سکتا ہے، لیکن اسے یکطرفہ طور پر معطل نہیں کیا جا سکتا۔
خطے کی سیاسی صورتحال اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر ممکنہ دباؤ کے تناظر میں یہ مذاکرات پاکستان کے لیے نہایت حساس نوعیت کے ہیں۔ معیشت پہلے ہی مہنگائی، کرنسی بحران اور مالیاتی عدم استحکام جیسے چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔ ایسے میں آئی ایم ایف کا تعاون پاکستان کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔