ڈاکٹر علی زین کا پولیس پر زور زبردستی کے ذریعے رقم وصول کرنے کا دعویٰ، ایس پی نے مکمل طور پر مسترد کر دیا
لاہور کے معروف ڈاکٹر علی زین العابدین نے الزام لگایا ہے کہ پولیس افسر شہر بانو نقوی نے ان سے زبردستی لاکھوں روپے مریضہ کو دلوائے۔ ڈاکٹر علی زین کے مطابق اپریل میں مریضہ کی آنکھ کی لیزر سرجری بالکل درست طریقے سے کی گئی تھی، تاہم پولیس نے انہیں پولیس اسٹیشن بلوا کر مریضہ کو اضافی رقم دینے پر مجبور کیا۔
ڈاکٹر علی زین کا موقف
ڈاکٹر علی زین نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے کہا کہ آپریشن ٹھیک نہیں ہوا، اور انہیں مریضہ کے پیسے واپس کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ڈاکٹر کے مطابق مریضہ پہلے ہی کلینک آ کر چار لاکھ روپے وصول کر چکی تھی، جبکہ اصل فیس صرف ڈیڑھ لاکھ روپے تھی۔
پولیس کے زور زبردستی کرنے پر ڈاکٹر علی زین نے مزید دس لاکھ روپے کے تین چیکس مریضہ کو دینے پڑے، جن میں سے ایک چیک کیش ہو چکا ہے، جبکہ باقی دو چیکس روکنے کے لیے ان کی قانونی ٹیم نے قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا ہے۔
ڈاکٹر علی زین نے یہ بھی الزام لگایا کہ پولیس اسٹیشن بلوانے کے لیے ایس ایچ او خرم کو کلینک بھیجا گیا اور ان کے گارڈ کو بھی غیر قانونی طور پر حوالات میں بند کیا گیا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ بغیر میڈیکل رپورٹ یا میڈیکل بورڈ کے فیصلے کے کسی ڈاکٹر کو پولیس اسٹیشن بلوانا درست نہیں، اور پولیس کے پاس کسی بھی آپریشن کی درستگی کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں۔
ایس پی شہر بانو نقوی کا موقف
دوسری جانب ایس پی شہر بانو نقوی نے تمام الزامات کی مکمل تردید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر علی زین ایک بار ان کے دفتر آئے، اور صرف مریضہ کے ساتھ معاملات طے کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر سے نہ تو بدتمیزی ہوئی اور نہ ہی کسی قسم کا تشدد کیا گیا۔
یہ معاملہ اس وقت زیر غور ہے اور دونوں فریقین کے موقف میں واضح تضاد موجود ہے، جس کی وجہ سے قانونی اور انتظامی اداروں کی جانب سے مزید تحقیقات کا امکان ہے۔
