خیبرپختونخوا کے سیاحتی مقام فضاگٹ میں پیش آنے والے ہولناک سیلابی سانحے نے ملک بھر کو سوگوار کر دیا۔ دریائے سوات میں اچانک آنے والے سیلابی ریلے نے 18 سیاحوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، جن میں سے 11 جاں بحق ہو گئے۔ چار افراد کو زندہ بچا لیا گیا، جبکہ تین لاپتہ افراد کی تلاش کا عمل تاحال جاری ہے۔
ریسکیو اداروں کے مطابق اب تک جن لاشوں کو نکالا گیا ہے، ان میں پانچ خواتین، دو بچے اور ایک مرد شامل ہیں۔ جاں بحق ہونے والوں کا تعلق سیالکوٹ اور مردان سے بتایا جا رہا ہے۔ سیلابی ریلے کا نشانہ بننے والوں میں ایک ہی خاندان کے کئی افراد شامل تھے، جن کی نماز جنازہ سیالکوٹ، ڈسکہ اور مردان میں ادا کی گئی۔ جنازوں کے موقع پر فضا آہوں اور سسکیوں سے گونجتی رہی اور ہر آنکھ اشکبار نظر آئی۔
متاثرہ خاندانوں کے افراد نے بتایا کہ انہوں نے بارہا انتظامیہ کو خبردار کیا تھا کہ دریا کنارے بیٹھنا خطرناک ہو سکتا ہے، مگر کسی نے ان کی سنجیدہ شکایت پر توجہ نہ دی۔ رشتہ دار روح الامین نے کہا کہ بچے ضد کر کے دریا کے قریب گئے تھے، اور تھوڑی دیر بعد ہی تیز رفتار ریلہ سب کو بہا لے گیا۔
واقعے کے بعد چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا شہاب علی شاہ نے جائے وقوعہ کا ہنگامی دورہ کیا اور متاثرہ خاندانوں کے لیے 15 لاکھ روپے فی کس مالی امداد کا اعلان کیا۔ انہوں نے بتایا کہ حادثے کے وقت دریائے سوات میں موجود 85 افراد میں سے 58 کو زندہ نکال لیا گیا، جبکہ باقی کے لیے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔
صوبائی حکومت نے سانحے میں غفلت برتنے پر چار افسران کو معطل کر دیا ہے، جن میں انتظامی اور ریسکیو حکام شامل ہیں۔ چیف سیکرٹری کے مطابق ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی واقعے کی مکمل تحقیقات کر رہی ہے، اور غفلت کے مرتکب افراد کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔
ادھر سوات انتظامیہ نے اس ہوٹل کو بھی سیل کر دیا ہے جہاں متاثرہ سیاحوں نے ناشتہ کیا تھا۔ ہوٹل مالکان اور مقامی افراد نے اس کارروائی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ اپنی ناکامی چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔
چیف سیکرٹری نے اس موقع پر یہ بھی اعلان کیا کہ دریائے سوات میں ہر قسم کی کھدائی پر پابندی عائد کی جا رہی ہے اور تجاوزات کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ سیاحوں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے نئے ایس او پیز جاری کیے جا چکے ہیں، تاکہ آئندہ ایسے دلخراش واقعات سے بچا جا سکے۔