اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے رہنما و سینیٹر علی ظفر نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ پیکا قانون (پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ) کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے اور اسے صحافیوں کو دبانے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، پیکا سے متعلق کیسز کی مکمل تفصیلات مانگی گئی تھیں، لیکن وزارت داخلہ اب تک مکمل معلومات فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وزارت اطلاعات نے وزارت داخلہ کو تین مرتبہ خطوط لکھے، مگر خاطر خواہ جواب نہیں ملا۔ اس پر کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ سیکرٹری داخلہ کو ایک ہفتے کے اندر تمام تفصیلات کے ساتھ پیش ہونے کی ہدایت دی گئی ہے، بصورت دیگر وزیر داخلہ کے خلاف کارروائی کا امکان ہے۔
علی ظفر نے پی ٹی وی کے مالی معاملات پر بھی اظہارِ تشویش کیا اور کہا کہ پی ٹی وی کو سالانہ 11 ارب روپے لائسنس فیس کی مد میں حاصل ہوتے ہیں، جو کہ 35 روپے ماہانہ بجلی کے بل کے ذریعے صارفین سے لیے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ فیس بند ہو گئی تو پی ٹی وی مالی بحران کا شکار ہو کر بند ہونے کے قریب پہنچ جائے گا کیونکہ ادارے کے پاس فیس اکٹھی کرنے کا کوئی متبادل نظام موجود نہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پی ٹی وی میں خسارے کے باوجود بھرتیوں کی بھرمار سے اخراجات دوگنے ہو چکے ہیں، جو 400 کروڑ سے بڑھ کر 800 کروڑ روپے ہو چکے ہیں، قائمہ کمیٹی نے پی ٹی وی سے ریونیو، اخراجات، اور نئی بھرتیوں کی مکمل تفصیلات طلب کر لی ہیں تاکہ ادارے کے مالی معاملات کا شفاف جائزہ لیا جا سکے۔
یاد رہے کہ پیکا قانون ماضی میں بھی تنقید کی زد میں رہا ہے، اور صحافی برادری اس کے خلاف بارہا آواز بلند کر چکی ہے، جسے آزادی اظہار پر قدغن تصور کیا جاتا ہے۔