ہفتہ, 3 مئی , 2025

پہلگام حملے کے بعد پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ: فضائی حدود کی بندش نے سفارتی بحران کو نئی سطح پر پہنچا دیا

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد / نئی دہلی — جنوبی ایشیا میں ایک بار پھر تناؤ کی فضا گہری ہوتی جا رہی ہے۔ 22 اپریل کو انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی کا سرکاری طیارہ ‘انڈیا ون’ جب نئی دہلی سے سعودی عرب کے شہر جدہ کے لیے روانہ ہوا، تو اس نے معمول کے مطابق پاکستانی فضائی حدود کا استعمال کیا۔ تاہم واپسی کے وقت پہلگام حملے کے بعد، اسی طیارے نے بحیرہ عرب کا متبادل راستہ اختیار کیا — ایک علامتی اشارہ جس نے ممکنہ سفارتی تعطل کا پیش خیمہ ثابت ہونا تھا۔

پہلگام میں سیاحوں پر ہونے والے حملے کے بعد، پاکستان اور بھارت دونوں نے ایک دوسرے کی فضائی حدود بند کرنے کے متبادل اقدامات کیے ہیں، جس کے نتیجے میں خطے کی فضائی نقل و حرکت پر براہ راست اثر پڑا ہے۔

latest urdu news

پاکستان کا فوری ردِعمل: بھارتی طیاروں پر پابندی
پاکستان کی سول ایوی ایشن اتھارٹی (CAA) نے اعلان کیا ہے کہ بھارتی رجسٹریشن کے حامل تمام مسافر اور کارگو طیارے — خواہ وہ بھارتی ایئرلائنز کی ملکیت ہوں، لیز پر ہوں یا ان کے زیرِ انتظام چلائے جا رہے ہوں — اب پاکستانی فضائی حدود استعمال نہیں کر سکیں گے۔ یہ پابندی انڈین فوجی پروازوں پر بھی لاگو ہوگی۔

پروازوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے والی معروف ویب سائٹ FlightRadar24 کے مطابق، اس فیصلے کے فوراً بعد کئی بھارتی پروازوں کی مانیٹرنگ میں اضافہ ہوا۔ ان میں نئی دہلی سے جرمنی، کویت سے بنگلور اور ٹورنٹو سے دہلی جانے والی پروازیں نمایاں تھیں۔ تاہم اس پابندی کے وقت جو بھارتی طیارے پاکستانی فضائی حدود میں موجود تھے، انہیں اپنی پرواز مکمل کرنے کی اجازت دے دی گئی۔

بھارت کا جواب: یکم مئی سے پاکستانی طیاروں پر پابندی
دوسری جانب، بھارتی خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا (PTI) کے مطابق، بھارت نے بھی پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے والے طیاروں پر پابندی عائد کر دی ہے، جو یکم مئی سے 23 مئی تک نافذ العمل رہے گی۔ ایئرپورٹس اتھارٹی آف انڈیا کی جانب سے جاری کردہ نوٹم (NOTAM) میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستانی رجسٹریشن کے حامل تمام طیارے، خواہ وہ مسافر بردار ہوں یا کارگو، انڈین فضائی حدود استعمال نہیں کر سکیں گے۔

پس منظر: پہلگام حملے کے اثرات
پہلگام، جو بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کا ایک مشہور سیاحتی مقام ہے، وہاں 22 اپریل کو سیاحوں کی ایک بس پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں کم از کم 26 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔ یہ حملہ بھارت میں عام شہریوں پر ہونے والے بدترین واقعات میں سے ایک ہے — خصوصاً اگر اس کا موازنہ 2008 کے ممبئی حملوں سے کیا جائے۔

اگرچہ تاحال کسی تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، بھارتی حکام کی طرف سے غیر رسمی سطح پر پاکستان کو ملوث کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ کشمیر پولیس نے تین مشتبہ حملہ آوروں کے خاکے جاری کیے ہیں، جن میں سے دو کو پاکستانی قرار دیا گیا ہے، تاہم اس دعوے کے حق میں کوئی ٹھوس شواہد تاحال منظرعام پر نہیں آئے۔

اسلام آباد نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے بھارت پر زور دیا ہے کہ بغیر ثبوت کے الزامات نہ لگائے جائیں اور معاملے کی غیر جانب دار تحقیقات کروائی جائیں۔

خطے میں معاشی اور سفارتی اثرات
یہ کشیدگی نہ صرف سفارتی تعلقات بلکہ معاشی سرگرمیوں کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ بھارت کی کئی بڑی بین الاقوامی پروازیں — بشمول یورپ، امریکہ اور مشرقِ وسطیٰ جانے والی — عمومی طور پر پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرتی ہیں کیونکہ یہ راستہ مختصر اور ایندھن کی بچت کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اس بندش کے باعث ان پروازوں کو لمبے متبادل راستے اختیار کرنے پڑ رہے ہیں، جس سے اخراجات میں اضافہ اور مسافروں کے لیے تاخیر کا امکان پیدا ہوا ہے۔

دوسری جانب، پاکستان بھی آبی وسائل، خاص طور پر دریاؤں کے بہاؤ، کے سلسلے میں بھارت پر انحصار رکھتا ہے، اور حالیہ کشیدگی ان شعبوں میں بھی خدشات کو جنم دے رہی ہے

شیئر کریں:
frontpage hit counter