پاکستان میں جنگلات کے رقبے میں 18 فیصد کمی: ماہرین کی تشویش

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

پشاور، ماحولیاتی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں جنگلات کے رقبے میں18 فیصد کمی ماحولیاتی توازن، معیشت اور قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بنتی جا رہی ہے۔

تفصیلات کے مطابق جنگلات کی کٹائی، چراگاہوں کی تباہی، جنگلات میں لگنے والی آگ اور موسمیاتی تبدیلی سے جڑے عوامل براہِ راست سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور کلاؤڈ برسٹ جیسے تباہ کن واقعات کو جنم دے رہے ہیں۔

latest urdu news

ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگلات محض درخت نہیں بلکہ پاکستان کے لیے ماحول اور معیشت کی پہلی دفاعی لائن ہیں جو بارش کے پانی کو جذب کر کے فلش فلڈز روکتے اور زرعی زمین کو کٹاؤ سے بچاتے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق ملک میں جنگلات کا رقبہ **1992 میں 3.78 ملین ہیکٹر سے کم ہو کر 2025 میں 3.09 ملین ہیکٹر** رہ گیا ہے۔ سالانہ کٹائی کی شرح اگرچہ حکومتی اقدامات کے باعث 40 ہزار ہیکٹر سے کم ہو کر 11 ہزار ہیکٹر سالانہ پر آ گئی ہے، مگر صورتحال اب بھی تشویشناک ہے۔ چراگاہوں کی بایو ماس پیداوار بھی اپنی ممکنہ صلاحیت کے صرف **20 فیصد** تک محدود ہو گئی ہے۔

این ڈی ایم اے: اس سال مون سون 50 فیصد زیادہ شدید، مزید 3 اسپیل متوقع

سرکاری دستاویزات کے مطابق چترال میں 1992 سے 2009 کے دوران3700 ہیکٹر جنگلات ختم ہوئے جبکہ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ2030 تک مزید 23 فیصد کمی متوقع ہے۔ ارندو گول میں لکڑی کی چوری کے دوران16 لاکھ مکعب فٹ لکڑی غیر قانونی طور پر کاٹی گئی جو ملکی تاریخ کا سب سے بڑا کیس قرار دیا جا رہا ہے۔

ماہرین نے کہا کہ ماضی کے بڑے سیلاب، خصوصاً **1992، 2010 اور 2025 کے تباہ کن سیلاب** اس بات کا ثبوت ہیں کہ جنگلات کی تباہی نے بالائی علاقوں کے واٹر شیڈز کو ’’سیلابی فیکٹریوں‘‘ میں بدل دیا ہے۔ بونیر، باجوڑ، بٹگرام اور مانسہرہ میں حالیہ کلاؤڈ برسٹ اور لینڈ سلائیڈز اسی ماحولیاتی انحطاط کا نتیجہ ہیں۔

اگر جنگلات کی بحالی اور چراگاہوں کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کو مستقبل میں **مزید بڑے ماحولیاتی اور معاشی نقصانات** کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter