پاکستان میں سکیورٹی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جب بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا اور صورتحال سنگین ہونے لگی، تو پاکستان نے ایک حکمتِ عملی کے تحت متضاد پیغامات دینا شروع کیے۔
ایک طرف عسکری کارروائی کی گئی، تو دوسری جانب یہ پیغام بھی دیا گیا کہ ملک کی نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا اجلاس طلب کیا جا رہا ہے۔ یہ پیغام ایک واضح اشارہ تھا کہ پاکستان اپنی جوہری صلاحیت کو پسِ پشت نہیں ڈال رہا۔
یاد رہے کہ این سی اے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول، سلامتی اور استعمال سے متعلق تمام فیصلہ سازی کی مجاز اتھارٹی ہے۔ اس کشیدہ صورتحال میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے سفارتی طور پر مداخلت کا فیصلہ کیا۔
معروف امریکی تھنک ٹینک "کارنیگی اینڈاؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس” سے وابستہ سینیئر تجزیہ کار ایشلی جے ٹیلس کے مطابق: "امریکہ کا کردار نہایت اہم تھا۔ اگر سیکریٹری روبیو نے بروقت مداخلت نہ کی ہوتی، تو معاملات اس نہج پر نہ پہنچتے۔”
یہ بھی واضح ہے کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان گزشتہ چند برسوں میں دفاعی اور اقتصادی تعلقات میں گہرائی آئی ہے، اور یہی امر امریکی سفارتی کردار کو مزید مؤثر بنانے میں معاون ثابت ہوا۔ وزیراعظم نریندر مودی اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ذاتی تعلقات نے بھی اس سفارتی ماحول کو سازگار بنانے میں کردار ادا کیا۔
بھارتی سفارتی ذرائع کے مطابق، اس بحران میں سیزفائر کی کوششیں تین مختلف سطحوں پر کی گئیں، بالکل ویسے ہی جیسے 2019 میں پلوامہ حملے اور بالاکوٹ کی صورتحال کے بعد کی گئی تھیں:
- امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے سفارتی دباؤ
- سعودی عرب کی ثالثی، جس میں ایک اعلیٰ سطحی وزیر نے دونوں ممالک کا دورہ کیا
- پاکستان اور بھارت کے قومی سلامتی مشیروں کے درمیان براہِ راست رابطے
ابتدائی ہچکچاہٹ کے بعد امریکہ نے فعال سفارتی کردار ادا کیا، اور یوں وہ اس بحران میں ایک اہم ثالث بن کر ابھرا۔ اگرچہ واشنگٹن میں امریکی کردار کو نمایاں طور پر سراہا جا رہا ہے، لیکن پاکستان اور بھارت میں اسے یکساں اہمیت نہیں دی جا رہی۔
خارجہ امور کے تجزیہ کار مائیکل کوگلمین کا ماننا ہے کہ سیزفائر کا معاہدہ غیرمستحکم ہے۔ ان کے مطابق:
"یہ ایک جلد بازی میں کیا گیا معاہدہ لگتا ہے، جس میں وہ یقین دہانیاں اور حفاظتی ضمانتیں شاید شامل نہیں جن کی ایسے نازک موقعوں پر ضرورت ہوتی ہے۔”
بھارتی میڈیا نے بھی سیزفائر کو اعلیٰ فوجی حکام کی سطح پر ہوا ایک سمجھوتا قرار دیا ہے، نہ کہ امریکہ کی براہِ راست ثالثی کا نتیجہ۔ یہ پہلو اس معاہدے کی کمزوری اور مستقبل میں دوبارہ کشیدگی کے امکان کی نشاندہی کرتا ہے۔