اسلام آباد، سپریم کورٹ میں نور مقدم قتل کیس کے مرکزی مجرم ظاہر جعفر کی سزا میں نرمی کی اپیل پر سماعت ہوئی، جہاں عدالت کو مجرم کی 2013 سے اب تک کی مکمل طبی تفصیلات فراہم کر دی گئیں، عدالت نے ممکنہ طور پر آج ہی فیصلہ سنانے کا عندیہ دیا ہے۔
ملزم کے وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ ان کے مؤکل کو قتل کے الزام میں سزائے موت، جنسی زیادتی پر عمر قید اور اغواء کے جرم میں دس سال قید کی سزا سنائی گئی، اسلام آباد ہائی کورٹ نے بعد ازاں زیادتی کی سزا کو عمر قید سے بڑھا کر سزائے موت میں تبدیل کر دیا، عدالت نے قرار دیا کہ ٹرائل کورٹ نے کم سزا دینے کی وجوہات بیان نہیں کیں۔
وکیل نے مزید بتایا کہ ابتدائی ایف آئی آر صرف قتل کے الزام پر درج کی گئی، دیگر دفعات بعد میں شامل کی گئیں، واقعہ ملزم کے ذاتی گھر میں پیش آیا لیکن وہاں سے کوئی مادی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔
سلمان صفدر نے کہا کہ واقعہ رات 10 بجے پیش آیا، ایف آئی آر ساڑھے 11 بجے درج ہوئی جبکہ پوسٹ مارٹم صبح ساڑھے نو بجے ہوا جس میں موت کا وقت رات 12:10 بتایا گیا، ایک زخمی، امجد، جسے پولیس نے چشم دید گواہ بنانے کے بجائے ملزم بنا دیا۔
انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پولیس کا انحصار صرف سی سی ٹی وی ویڈیو پر تھا اور فوٹوگرامیٹک ٹیسٹ بھی کروایا گیا، جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ اس قسم کے ایک اور کیس میں ہم پہلے ہی فیصلہ دے چکے ہیں۔
وکیل صفائی نے مزید مؤقف اختیار کیا کہ آلہ قتل ایک چھوٹا چاقو تھا جس پر ظاہر جعفر کے فنگر پرنٹس نہیں پائے گئے، جبکہ سوائے مدعی شوکت مقدم کے تمام گواہ سرکاری ملازمین تھے، جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ واقعے کا کوئی براہ راست گواہ نہیں ہے، تمام شواہد ضمنی نوعیت کے ہیں۔
جسٹس کاکڑ نے کہا کہ اگر کیس میں ریلیف بنتا ہوا نظر آیا تو دیا جائے گا ورنہ فیصلہ سنا دیا جائے گا، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مقدمات کو طول دینا درست نہیں، مجرموں کو ڈیتھ سیل میں برسوں رکھنے کی روش ختم ہونی چاہیے۔
سماعت کے دوران وکیل نے ارشد ملک ویڈیو کیس کا حوالہ دیا، جس پر عدالت نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کے فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر ویڈیو یا آڈیو ثبوت کے معیار کو انتہائی سخت کر دیا جائے تو سچ کو بھی ثابت کرنا ممکن نہیں رہتا، بعد ازاں عدالت نے سماعت میں وقفہ کر دیا۔