پشاور — خیبر پختونخوا کی سیاسی فضا میں غیر یقینی صورتحال اس وقت مزید گہری ہو گئی جب وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے استعفے کی منظوری میں تاخیر اور متبادل سیاسی چالوں کی اطلاعات سامنے آئیں۔ 48 گھنٹوں سے زائد گزرنے کے باوجود علی امین گنڈاپور کا استعفیٰ ابھی تک باضابطہ طور پر منظور نہیں ہو سکا، جبکہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاریاں مکمل بتائی جا رہی ہیں۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنا استعفیٰ گورنر کو بھیج چکے ہیں اور مزید “ڈرامے بازی” نہیں ہونی چاہیے۔ دوسری جانب گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی کا کہنا ہے کہ ابھی تک استعفیٰ ان کے پرنسپل سیکریٹری تک نہیں پہنچا، اور جب تحریر موصول ہو گی، تو قانون کے مطابق اس پر فیصلہ کیا جائے گا۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ گورنر، استعفیٰ ہاتھ سے لکھا نہ ہونے پر اعتراض کر سکتے ہیں۔ اسی امکان کے پیش نظر گنڈاپور نے دوبارہ ہاتھ سے لکھا ہوا استعفیٰ تیار کیا ہے، جسے جلد دوبارہ گورنر کو بھجوانے کا امکان ہے۔
اسمبلی اجلاس اور تحریک عدم اعتماد کی تیاری
ذرائع کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں آج (ممکنہ طور پر سہ پہر 3 بجے) اجلاس بلایا جا سکتا ہے، حالانکہ اسمبلی میں فی الحال چھٹی ہے، لیکن تمام عملہ حاضر ہے۔ اس غیر معمولی صورتحال نے سیاسی سرگرمیوں کو اور بھی پرجوش کر دیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے علی امین گنڈاپور کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا مسودہ تیار کر لیا ہے۔ اگر گورنر استعفیٰ قبول نہیں کرتے تو یہ تحریک اسمبلی میں پیش کی جا سکتی ہے۔
اس وقت خیبر پختونخوا اسمبلی کے 145 رکنی ایوان میں سے 93 اراکین آزاد حیثیت رکھتے ہیں، جو عملی طور پر پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ ہیں، جبکہ 52 اراکین اپوزیشن بینچز پر موجود ہیں۔
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 73 ووٹ درکار ہیں، اور اگر پی ٹی آئی کی آزاد اراکین کی اکثریت گنڈاپور کے خلاف ہو جاتی ہے تو ان کا اقتدار میں رہنا ممکن نہیں ہوگا۔