اسلام آباد میں باخبر ذرائع کے مطابق حکومت نے اپوزیشن کو اپنا مؤقف صاف بتا دیا ہے۔ کسی بھی مذاکرات میں 8 فروری 2024 کے عام انتخابات زیرِ بحث نہیں آئیں گے۔ حکومت کے مطابق انتخابات کو مسترد کرنے کا مطالبہ ناقابلِ قبول ہے۔ انتخابی نتائج پر سیاسی مذاکرات کا امکان بھی رد کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح اقتدار کی منتقلی پر بات نہیں ہوگی۔
انتخابی اعتراضات کا آئینی طریقہ
ذرائع کا کہنا ہے کہ انتخابی عمل پر اعتراضات کیلئے آئینی فورمز موجود ہیں۔ یہ فورمز الیکشن ٹربیونلز اور اعلیٰ عدالتیں ہیں۔ حکومت نے واضح کیا ہے کہ فیصلے وہیں سے ہوں گے۔ عدالتی فیصلے سب کیلئے قابلِ قبول ہوں گے۔ یہ اصول حکومتی جماعتوں پر بھی لاگو ہوگا۔
پی ٹی آئی کو دیا گیا پیغام
ذرائع کے مطابق یہ پیغام پی ٹی آئی کی سینئر قیادت کو پہنچایا جا چکا ہے۔ پی ٹی آئی نے یہی مؤقف اپوزیشن اتحاد تک منتقل کیا ہے۔ یہ اتحاد محمود خان اچکزئی کی قیادت میں قائم ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ انتخابی معاملہ دوبارہ کھولنا عملی نہیں۔ ایسا کرنے سے 2018 کے انتخابات بھی متنازع بن سکتے ہیں۔
اصلاحاتی ایجنڈے پر مذاکرات کی پیشکش
تاہم حکومت نے مذاکرات کا دروازہ مکمل بند نہیں کیا۔ ادارہ جاتی اور آئینی اصلاحات پر بات چیت کی پیشکش کی گئی ہے۔ پارلیمان کے کردار کو مضبوط بنانے پر بھی آمادگی ظاہر کی گئی ہے۔ قانون کی حکمرانی اور جمہوری اصلاحات ایجنڈے میں شامل ہیں۔ سیاسی قیدیوں کے معاملے پر بھی آئینی حدود میں غور ممکن ہے۔
9 مئی کے واقعات اور حساس معاملات
ذرائع کے مطابق 9 مئی کے تشدد سے متعلق معاملات حساس نوعیت کے ہیں۔ یہ معاملات صرف حکومت کے اختیار میں نہیں آتے۔ دیگر ریاستی اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت ضروری سمجھی جا رہی ہے۔ عسکری قیادت کا مؤقف پہلے ہی سامنے آ چکا ہے۔ اس مؤقف میں کسی نرمی کے آثار نہیں۔
سیاسی ردِعمل اور ممکنہ پیش رفت
پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے پیغامات کی تصدیق کی ہے۔ تاہم انہوں نے تفصیلات پر تبصرہ نہیں کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے مذاکرات کی پیشکش دہرائی ہے۔ انہوں نے بلیک میلنگ کو مسترد کرنے پر زور دیا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق بنیادی اختلافات اب بھی موجود ہیں۔ نیک نیتی پر مبنی براہِ راست رابطہ ہی پیش رفت کا راستہ بن سکتا ہے۔
