وفاقی وزارتوں میں 1100 ارب روپے کی مالی بے ضابطگیاں، آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں انکشاف

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد، آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے مالی سال 2023-24 کی سالانہ آڈٹ رپورٹ جاری کرتے ہوئے وفاقی وزارتوں اور ڈویژنز میں 1100 ارب روپے سے زائد کی مالی بے ضابطگیوں، قواعد کی خلاف ورزیوں اور سرکاری فنڈز کے غیر مؤثر استعمال کی نشاندہی کی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ بے ضابطگیاں مالیاتی نظم و ضبط کی خلاف ورزی، غیر مجاز ادائیگیوں اور ادارہ جاتی کنٹرولز کی کمزوریوں کی واضح علامت ہیں۔

latest urdu news

رپورٹ میں سب سے سنگین معاملہ اس وقت سامنے آیا جب ملک میں مقامی گندم کی وافر دستیابی کے باوجود 35 لاکھ 90 ہزار ٹن گندم درآمد کی گئی، جس کے باعث قومی خزانے کو 300 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔ اس فیصلے سے مقامی منڈی میں گندم کی بھرمار ہوئی اور کسانوں کو شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کئی وفاقی وزارتوں نے بجٹ کی منظوری کے بغیر اخراجات کیے، جو مالیاتی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ملازمین کو اضافی الاؤنسز کی مد میں ضرورت سے زیادہ رقوم ادا کی گئیں، جس سے قومی خزانے پر اضافی بوجھ پڑا۔ اسی طرح سول آرمڈ فورسز میں بھی غیر مجاز ادائیگیاں اور خریداری میں بے قاعدگیاں رپورٹ ہوئیں۔ نجی تعلیمی اداروں کی ریگولیٹری اتھارٹی میں ملازمین کو غیر قانونی تنخواہیں اور مراعات دی گئیں، جو مالی شفافیت پر سوال اٹھاتے ہیں۔

ایویکیو ٹرسٹ پراپرٹی بورڈ، جموں و کشمیر اسٹیٹ پراپرٹیز اور کراچی پورٹ ٹرسٹ کی اراضی پر غیر قانونی قبضے کے کیسز بھی رپورٹ کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ بعض ادائیگیوں سے واجب الادا ٹیکس کی کٹوتی نہ کرنے کی وجہ سے ملکی محصولات میں نمایاں کمی واقع ہوئی، جس سے ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی ظاہر ہوتی ہے۔

رپورٹ میں پانچ کیسز ایسے بھی سامنے آئے جن میں 1.69 ارب روپے کی فرضی ادائیگیاں اور خوردبرد کی گئی۔ مزید یہ کہ 689.48 ارب روپے کی ریکوری سے متعلق 107 کیسز کی نشاندہی کی گئی ہے جن پر فوری اصلاحی اقدامات کی ضرورت ہے۔ داخلی کنٹرول کی ناکامی سے متعلق 39 کیسز میں مجموعی طور پر 160.39 ارب روپے کی رقم شامل ہے۔

آڈیٹر جنرل نے رپورٹ میں سفارش کی ہے کہ کوئی بھی سرکاری خرچ پارلیمانی منظوری کے بغیر نہ کیا جائے، ضمنی گرانٹس صرف درست تخمینے کی بنیاد پر جاری کی جائیں، خوردبرد کے کیسز تحقیقاتی اداروں کو بھیجے جائیں اور تمام غیر خرچ شدہ رقوم فوری طور پر قومی خزانے میں جمع کرائی جائیں۔ مزید سفارشات میں داخلی آڈٹ اور کنٹرول سسٹم کو مؤثر بنانے، اداروں کو مکمل آڈٹ ریکارڈ فراہم کرنے، اثاثہ جات کا باقاعدہ اندراج کرنے اور سالانہ تصدیق کو لازمی قرار دینے پر زور دیا گیا ہے۔

آڈٹ رپورٹ میں سرکاری فنڈز کے نظم و نسق کی سنگین کمزوریوں کو اجاگر کیا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ ادارہ جاتی اصلاحات، شفاف نگرانی اور مؤثر احتسابی نظام کی فوری ضرورت ہے تاکہ عوامی اعتماد بحال کیا جا سکے اور قومی وسائل کے ضیاع کو روکا جا سکے۔

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter