ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے کہا ہے کہ غزہ اور خان یونس پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہیں جبکہ پاکستانی شہریوں کے اسرائیل جانے سے متعلق کسی قسم کی اطلاع موجود نہیں۔
ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستانیوں کے اسرائیل جانے سے متعلق خبروں کی چھان بین کی جا رہی ہے اور صورتحال واضح ہونے کے بعد ہی کوئی تبصرہ کیا جا سکے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے میزائل اور دفاعی نظام مکمل طور پر ملکی سلامتی اور استحکام کے لیے ہیں، ہمارا جوہری پروگرام محفوظ اور ناقابل تسخیر ہے، جبکہ میزائل صلاحیت ملکی دفاع کے لیے ایک مؤثر حکمت عملی کا حصہ ہے۔
ایک سوال کے جواب میں شفقت علی خان کا کہنا تھا کہ کسی ملک کا سفری ایڈوائزری جاری کرنا اس کا داخلی معاملہ ہوتا ہے، تاہم پاکستانی شہریوں پر امریکا میں داخلے پر پابندی کی خبروں میں کوئی حقیقت نہیں، امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے بھی ایسی رپورٹس کی تردید کی ہے۔
افغان ناظم الامور کی طلبی سے متعلق سوال پر ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ان کی طلبی معمول کا حصہ تھی، ویزا معاملات پر اجلاس بھی معمول کی کارروائی کا حصہ تھا، کسی سفارتکار کو طلب کرنا غیرمعمولی بات نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان مسلسل اپنے خدشات افغانستان تک پہنچا رہا ہے اور مختلف ذرائع سے مؤقف واضح کر رہا ہے، عالمی برادری سے بھی افغان سرزمین پر موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ افغان مہاجرین کی واپسی کی ڈیڈ لائن برقرار ہے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ طورخم بارڈر گزشتہ روز کھولا گیا، جمعہ سے پیدل مسافروں کو سفر کی اجازت دی جائے گی، بارڈر 15 اپریل تک کھلا رہے گا اور اس معاملے کا مستقل حل نکالا جائے گا۔ بارڈر پوسٹ کی تعمیر روکنا پاکستان کا اہم مطالبہ تھا جسے تسلیم کر لیا گیا ہے۔
شفقت علی خان نے کہا کہ دفتر خارجہ کے افسران انسانی اسمگلنگ میں ملوث نہیں، ایسی قیاس آرائیوں میں کوئی حقیقت نہیں، سوشل میڈیا رپورٹس کی چھان بین کے لیے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم کی جا رہی ہے۔
ترجمان نے مزید بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف اس وقت سعودی عرب کے سرکاری دورے پر ہیں، جہاں ان کی سعودی ولی عہد سے ملاقات ہوئی، انہوں نے سعودی عرب کی مسلسل حمایت پر ولی عہد کا شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے بھارت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جعفر ایکسپریس ٹرین حملے کی بھارت نے اب تک مذمت نہیں کی، جبکہ پاکستان میں دہشت گردی میں بھارتی مداخلت کے شواہد موجود ہیں۔