چرچ آف انگلینڈ نے تاریخی فیصلہ کرتے ہوئے 63 سالہ ڈیم سارہ مولالی کو آرچ بشپ آف کینٹربری مقرر کر دیا، جو اس عہدے پر فائز ہونے والی پہلی خاتون بن گئی ہیں۔
وہ اس منصب پر تقرری پانے والی 106ویں مذہبی رہنما ہیں، جبکہ یہ عہدہ گزشتہ 1400 سال سے مرد مذہبی رہنماؤں کے پاس رہا ہے۔
ڈیم سارہ مولالی 2018 سے لندن کی بشپ کے طور پر خدمات سرانجام دے رہی تھیں اور ماضی میں نرس اور دائی بھی رہ چکی ہیں۔ وہ خود کو حقوقِ نسواں کی علمبردار قرار دیتی ہیں اور چرچ میں اصلاحاتی نقطہ نظر کی حمایت کرتی رہی ہیں، خاص طور پر خواتین اور ہم جنس پرست جوڑوں کے حوالے سے۔
ان کی تقرری کو چرچ آف انگلینڈ میں ایک بڑی پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، تاہم افریقی ممالک میں موجود قدامت پسند اینگلیکن گروپس نے اس فیصلے پر اعتراضات بھی اٹھائے ہیں۔ ان گروپس کا مؤقف ہے کہ خواتین کو بشپ بنانے کی روایت چرچ کی اصل تعلیمات سے انحراف ہے۔
برطانیہ میں یہودی عبادت گاہ پر حلمہ،سرکاری عمارتوں پر پرچم سرنگوں
کینٹربری کیتھیڈرل میں اپنے پہلے خطاب میں سارہ مولالی نے چرچ میں جنسی استحصال، ادارہ جاتی خامیوں اور مانچسٹر میں یہودی عبادت گاہ پر دہشت گرد حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔
مولالی اب دنیا بھر میں موجود تقریباً 8 کروڑ 50 لاکھ اینگلیکن عیسائیوں کی علامتی مذہبی رہنما بن چکی ہیں۔ ان کی تقرری کو جہاں ایک تاریخی لمحہ قرار دیا جا رہا ہے، وہیں چرچ کے اندرونی حلقوں میں یہ فیصلہ نئے نظریاتی مباحث کو بھی جنم دے رہا ہے۔