اسلام آباد، سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کیا ملٹری کورٹس میں زیادہ سزائیں سنائی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے کیسز وہاں بھیجے جاتے ہیں؟
سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ کی سربراہی جسٹس امین الدین خان کر رہے ہیں، جس میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کی جا رہی ہے۔ اس دوران وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب میں اپنے دلائل دیے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ اگر جرم پاکستان کی دفاع یا سروس سے متعلق ہو تو اس کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہوگا۔ اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ "ڈیفنس آف پاکستان” کی تعریف کیا ہے؟
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اگر ہم "ڈیفنس آف پاکستان” کی تعریف میں جائیں تو سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ بھی اس تعریف میں آتے ہیں، حتیٰ کہ ریلوے اسٹیشنز بھی اس میں شامل ہوسکتے ہیں۔
جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ کئی کینٹ ایریاز میں تجارتی سرگرمیاں اور شاپنگ مالز ہیں، اور وہاں بغیر اجازت کے داخلہ نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی ان علاقوں میں جانے کی کوشش کرے تو کیا اس کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہوگا؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کراچی میں 6 سے 7 کینٹ ایریاز ہیں، لیکن وہاں مرکزی شاہراہوں کو ممنوعہ علاقہ قرار نہیں دیا گیا۔ جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ کے 5 سے 6 ججز کلفٹن کینٹ کے رہائشی ہیں اور وہاں ممنوعہ علاقے کا کوئی نوٹیفکیشن نہیں ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ انہیں ایک مرتبہ کینٹ ایریا میں داخل ہونے سے اس وجہ سے منع کیا گیا کہ ان کے پاس اجازت نامہ نہیں تھا۔
اس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ پاکستان میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ شروع سے موجود ہے، تو کیا ملٹری کورٹس میں زیادہ سزائیں دی جاتی ہیں، اس لیے کیسز وہاں بھیجے جاتے ہیں؟ اور عام عدالتوں میں ٹرائل کیوں نہیں چلتے؟ انہوں نے اس بات سے اختلاف کیا کہ آرمی ایکٹ ایک درست قانون ہے۔
جسٹس مندوخیل نے یہ سوال بھی کیا کہ ملٹری ٹرائل کے لیے آزادانہ فورم کیوں نہیں ہے؟ اس پر وزارت دفاع کے وکیل نے جواب دیا کہ آئین کے مطابق ملٹری ٹرائل کو بنیادی حقوق کے تناظر میں نہیں جانچا جاسکتا۔