ادارے اگر سیاسی انجینئرنگ میں مصروف ہونگے تو ایسا ہی ہوگا، سپریم کورٹ کے جج کا مکالمہ

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

سپریم کورٹ میں قتل کیس کے ملزم اسحاق کی درخواست ضمانت کی سماعت کے دوران دلچسپ مکالمہ ہوا۔

جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ 2017 سے کیس سپریم کورٹ میں زیرا لتواء ہے اور ریاست حکومت گرانے اور لانے میں مصروف ہے، تمام ادارے سیاسی مخالفین کے پیچھے پڑے ہیں، آئین پر عمل ہوتا تو ایسے حالات نہ ہوتے۔

latest urdu news

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ریاست کی کیا بات کریں؟ 3 وزرائے اعظم مارے گئے، تینوں وزرائے اعظم کے کیسز کا کیا بنا؟ بلوچستان میں ایک سینئر ترین جج بھی مارے گئے، کچھ معلوم نہیں ہوا، اصل بات کچھ کرنے کی خواہش نہ ہونا ہے، دیگر دو صوبوں کی نسبت سندھ اور پنجاب میں پولیس کی تفتیش انتہائی ناقص ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ جب تک ریاستی ادارے سیاسی انجینئرنگ میں مصروف ہوں گے تو ایسا ہی حال رہے گا، لوگوں کو اداروں پر یقین نہیں، لوگ چاہتے ہیں تمام کام سپریم کورٹ کرے، جسٹس اطہر من اللہ بولے یہ ادارہ بھی اتنا ہی سچ بولتا ہے جتنا ہمارا معاشرہ، 40 سال بعد منتخب وزیراعظم کے قتل کا اعتراف کیا گیا، وزیراعظم کے قتل سے بڑا جرم کیا ہوسکتا ہے؟ کسی کو ذمہ دار قرار دے کر سزا دی جانی چاہیے تھی۔

جسٹس ملک شہزاد نے کہا کہ جس ملک میں وزیراعظم کا ایسا حال ہوتو عام آدمی کا کیا حال ہو گا؟ وزیراعظم ایک دن وزیراعظم ہاؤس تو دوسرے دن جیل میں ہوتا ہے، کسی کو معلوم نہیں کس کو کتنے دن وزیراعظم رہنا ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے پولیس کو ملزم اسحاق کو گرفتار کر کے جیل حکام کے حوالے کرنے کا حکم دیدیا گیا۔

واضح رہے کہ ملزم اسحاق اس سے پہلے ضمانت حاصل کرنے کے بعد فرار ہو گیا تھا۔

latest breaking news in urdu

شیئر کریں:
frontpage hit counter