کیس نمبر 9: انصاف کی راہ میں ڈرامائی موڑ یا حقیقت کی تلخ حقیقت کا انعکاس؟

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

پاکستانی ڈرامہ نگاری کی دنیا میں ایک نئی سیریز نے موضوعات کی حساسیت کو چھو لیا ہے، جو نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ معاشرتی زخموں کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ یہ سیریز ایک ایسے کیس کی داستان بیان کرتی ہے جس میں ایک بہادر خاتون کو طاقتور طبقے کے سامنے عدالتی میدان میں لڑنا پڑتا ہے، جہاں ریپ جیسے سنگین جرم کی متاثرہ کی جدوجہد مرکزی کردار ہے۔

latest urdu news

اداکاروں کی شاندار کارکردگی، تیز رفتار اسکرپٹ اور سماجی مسائل کی گہرائی نے اس سیریز کو فوری طور پر ناظرین کی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ مگر جب معاملہ انسانی حقوق کے انتہائی نازک پہلو سے متعلق ہو تو تفریحی مواد کی ذمہ داری کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔

پاکستان جیسے ملک میں، جہاں پائیدار سماجی ترقیاتی تنظیم کی 2025 کی رپورٹ کے مطابق جنسی بنیاد پر تشدد کے کیسز میں سزا کی شرح صرف 0.5 فیصد ہے، ایسا مواد نہ صرف ناظرین کو متاثر کرتا ہے بلکہ قانونی نظام کی پیچیدگیوں اور متاثرین کی حقیقی مشکلات کو مسخ کرنے کا خطرہ بھی رکھتا ہے۔

یہ تحریر تنقید کے لیے نہیں بلکہ اصلاح کی نیت سے ہے، کیونکہ قومی نشریاتی پلیٹ فارمز پر پیش ہونے والا مواد معاشرتی رہنمائی کا ذریعہ بننا چاہیے، نہ کہ غلط فہمیوں کا باعث۔

قانونی درستگی کی کمی

اس سیریز کی سب سے نمایاں کمزوری قانونی تفصیلات کی درستگی میں ہے، جو ابتدائی اقساط سے ہی نمایاں ہو جاتی ہے۔ کہانی کا آغاز ایک ایسے منظر سے ہوتا ہے جہاں متاثرہ خاتون واقعے کے فوراً بعد پولیس اسٹیشن پہنچ جاتی ہے اور شکایت درج ہو جاتی ہے، جیسے یہ روزمرہ کا معمول ہو۔

حقیقت اس سے کہیں زیادہ تلخ ہے۔ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 375 اور 2016 کے کریمنل لا (ترمیم) ایکٹ کے تحت ریپ کی شکایت درج کرانے کا قانونی حق تو موجود ہے، مگر ہیومن رائٹس واچ کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایسے کیسز کی رپورٹنگ کی شرح انتہائی کم ہے، اور سزا کی شرح 3 فیصد سے بھی کم۔

ایکویلیٹی ناؤ کی جنوبی ایشیا پر 2024 کی رپورٹ مزید واضح کرتی ہے کہ پولیس کا غیر حساس رویہ، خاندانی دباؤ اور معاشرتی بدنامی کا خوف متاثرین کو ابتدائی 72 گھنٹوں میں شکایت درج کرانے سے روک دیتا ہے۔

سپریم کورٹ کے 2013 کے تاریخی فیصلے (پی ایل ڈی 2013 ایس سی 826) میں میڈیکل معائنہ 24 گھنٹوں کے اندر لازمی قرار دیا گیا ہے، ورنہ مقدمہ کمزور پڑ جاتا ہے۔ مگر عملی طور پر یہ ہدایات اکثر نظر انداز ہو جاتی ہیں۔

انسدادِ ریپ (تحقیق و ٹرائل) ایکٹ 2021 کے تحت بنائے گئے قوانین میں اے آر سی سیز (Anti-Rape Crisis Cells) کی تعداد میں اضافہ کیا گیا، مگر لاہور ہائی کورٹ نے 6 اپریل 2025 کو نفاذ میں ناکامی پر تشویش کا اظہار کیا۔

پنجاب جی بی وی رپورٹ 2025 کے مطابق لاہور میں 532 اور فیصل آباد میں 340 ریپ کیسز درج ہوئے، جن میں سے صرف 16.5 فیصد سزائیں ہوئیں — وہ بھی جینڈر بیسڈ وائلنس کورٹس کی بدولت۔

یہ سیریز ان حقیقتوں کو نظرانداز کرتی ہے، جس سے ناظرین کو یہ غلط تاثر ملتا ہے کہ ہر متاثرہ فوری انصاف حاصل کر سکتی ہے، حالانکہ حقیقت میں یہ برسوں پر محیط جدوجہد ہوتی ہے۔

صبا قمر نے ذہنی دباؤ کی وجہ سے دل کا معمولی دورہ پڑنے اور انجیوگرافی کرانے کا انکشاف کر دیا

تفتیشی نظام کی حقیقت

تفتیشی مراحل کی تصویر کشی بھی غیر حقیقی اور مسخ شدہ ہے۔ ڈرامے میں ملزم کی گرفتاری، شواہد کی بازیابی اور گواہوں کی نشاندہی چند دنوں میں مکمل ہو جاتی ہے، گویا پولیس نظام انتہائی تیز رفتار اور مؤثر ہو۔

حقیقت میں ضابطہ فوجداری کی دفعات 154 سے 173 تک تفتیشی فریم ورک 14 دنوں میں چالان رپورٹ کا تقاضا تو کرتا ہے، مگر پنجاب فورنزک سائنس ایجنسی کی ڈی این اے رپورٹس میں 4 سے 8 ماہ لگ جاتے ہیں۔

ایف آئی اے کی 2024 کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فورنزک ثبوتوں کی کمی کے باعث 60 فیصد کیسز ختم ہو جاتے ہیں، جبکہ وزارتِ قانون کے مطابق بریت کی شرح 92 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

عالمی سطح پر یو این ویمن کی 2024 رپورٹ میں جنوبی ایشیا میں بریت کی شرح 85 فیصد بتائی گئی، جبکہ پاکستان میں یہ شرح 92 فیصد ہے۔

یہ سیریز فوری شواہد کی پیشکش سے ناظرین کو یہ غلط امید دلاتی ہے کہ نظام تیز رفتار ہے، حالانکہ حقیقت میں متاثرین کو طویل انتظار اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

عدالتی کارروائیوں کا غلط تاثر

عدالتی مراحل کی پیشکش میں بھی قانونی درستگی کی کمی ہے۔ ڈرامے میں مقدمہ فوری طور پر سیشن کورٹ میں چلنا شروع ہو جاتا ہے، ضمانت کی سماعت ایک ہفتے میں طے ہو جاتی ہے اور گواہوں کی حفاظت کا کوئی مسئلہ نہیں دکھایا جاتا۔

حقیقت میں مجسٹریٹ کی منظوری اور کیس کی منتقلی کا عمل 45 سے 90 دن لیتا ہے۔ انسدادِ ریپ ایکٹ 2021 میں تین ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت ہے، مگر لاہور ہائی کورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق 68 فیصد کیسز دو سال سے زیادہ چلتے ہیں۔

گواہوں کے تحفظ کے لیے موجود قوانین — گواہ تحفظ ایکٹ 2017 (وفاقی) اور 2018 (پنجاب) — مؤثر طور پر نافذ نہیں کیے جا سکے۔ اقوام متحدہ کے ادارے UNODC کے مطابق سندھ میں نفاذ کی ناکامی کے باعث گواہ اکثر بیان بدل دیتے ہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 40 فیصد گواہ دباؤ میں آکر اپنا مؤقف تبدیل کر دیتے ہیں۔

یہ سب پہلو ڈرامے میں بالکل غائب ہیں، جس سے عدالتی نظام کو “فوری انصاف دینے والا” ظاہر کیا گیا ہے — ایک ایسی غلط فہمی جو متاثرین کی حقیقی مشکلات کو مزید گہرا کرتی ہے۔

میڈیکل و نفسیاتی پہلوؤں کی نظراندازی

کہانی میں میڈیکل رپورٹ فوری طور پر عدالت میں پیش ہو جاتی ہے، حالانکہ حقیقت میں پنجاب فورنزک سائنس ایجنسی کے رہنما اصولوں کے مطابق جنسی حملہ شواہد اکٹھا کرنے کی کٹس (SAEC Kits) کا استعمال بہت کم ہوتا ہے۔

انسدادِ ریپ ایکٹ 2021 میں “ٹو فنگر ٹیسٹ” پر پابندی عائد کی گئی ہے، مگر 55 فیصد کیسز میں میڈیکل معائنہ 48 گھنٹوں کے بعد ہوتا ہے، جس سے اہم شواہد ضائع ہو جاتے ہیں۔

نفسیاتی مدد کا بھی کوئی ذکر نہیں، حالانکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 80 فیصد متاثرین پی ٹی ایس ڈی کا شکار ہوتی ہیں، اور پاکستان میں نفسیاتی سہولیات 5 فیصد سے بھی کم دستیاب ہیں۔

یہ پہلو چھوڑ دینا نہ صرف قانونی بلکہ انسانی ہمدردی کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔

نشریاتی و اخلاقی ذمہ داری

چونکہ یہ مواد قومی سطح پر پیش کیا جا رہا ہے، اس لیے اس کی اخلاقی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ برٹش بورڈ آف فلم کلاسیفیکیشن (BBFC) اور نیٹ فلکس جیسے ادارے ایسے حساس مواد کو 18+ ریٹنگ کے ساتھ نشر کرتے ہیں۔

پیمرا کے الیکٹرانک میڈیا کوڈ آف کنڈکٹ 2015 (اپ ڈیٹ 2025) کی شق 12 کے تحت بھی “حساس مواد” کے لیے نشریاتی وقت اور وارننگ لازمی ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی 2024 رپورٹ کے مطابق ایسے ڈرامے نوعمر لڑکیوں میں “فوری انصاف” کی غلط امید پیدا کرتے ہیں، جو ذہنی دباؤ اور خودکشی کی شرح میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔

تعمیری تجاویز

  • سیریز کے آئندہ حصوں میں قانونی ماہرین کی مشاورت کو لازمی بنایا جائے۔
  • ہر قسط کے آخر میں ایک نوٹ شامل کیا جائے:
    “یہ کہانی فرضی ہے؛ حقیقت میں تفتیش اور مقدمات کے مراحل مہینوں یا برسوں پر محیط ہوتے ہیں۔ فوری مدد کے لیے 1099 ہیلپ لائن، 15 یا مقامی قانونی امداد سے رابطہ کریں۔”
  • نشریاتی ادارے اس سیریز کو 18+ ریٹنگ کے ساتھ مناسب وقت پر نشر کریں۔

نتیجہ

یہ سیریز ایک اہم سماجی مسئلے کو اجاگر کرنے کی کوشش ہے، مگر حقیقت اور فکشن کے درمیان فرق واضح رکھنا لازم ہے۔ اگر مقصد آگاہی پھیلانا ہے تو درستگی اور ذمہ داری بھی ضروری ہے، ورنہ یہ پروگرام انصاف کی راہ میں رکاوٹ بن جائے گا، امید کی کرن نہیں۔

پاکستان کو ایسے ڈراموں کی ضرورت ہے جو متاثرین کی حقیقی جدوجہد کو اجاگر کریں — تاکہ معاشرہ حقیقت کو سمجھے، فسانہ نہیں۔

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter