وزیردفاع خواجہ آصف نے انکشاف کیا ہے کہ اس وقت بھی سعودی عرب میں پاکستان کے تقریباً 1600 فوجی اہلکار تعینات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی تعاون کی طویل تاریخ ہے، جو اب مزید مضبوط ہو رہا ہے۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام "خبر” میں گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ ماضی میں کئی ہزار پاکستانی فوجی سعودی عرب میں موجود ہوا کرتے تھے۔ اب اس دفاعی شراکت داری کو پہلی مرتبہ تحریری معاہدے (پیکٹ) کی صورت میں رسمی شکل دی گئی ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعلقات کو مزید مستحکم کرے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مستقبل میں سعودی عرب میں پاکستانی فوج کی موجودگی میں اضافہ متوقع ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان، سعودی عرب کے ساتھ نہ صرف دفاعی بلکہ اسٹریٹجک سطح پر بھی تعلقات کو فروغ دے رہا ہے۔
غزہ کے حالیہ حالات پر بات کرتے ہوئے وزیردفاع نے کہا کہ "اس وقت غزہ میں قیامت خیز صورتحال ہے۔” انہوں نے انکشاف کیا کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کے ٹیک اوور کی تجویز مصر سمیت دیگر مسلم ممالک کو دی تھی۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ کی جانب سے کوئی باقاعدہ تجویز سامنے آئی تو مسلم ممالک باہمی مشاورت سے فیصلہ کریں گے کہ آیا غزہ میں پیس فورس بھیجنی ہے یا انتظامی کنٹرول سنبھالنا ہے۔
سعودی عرب سے تاریخی معاہدہ، دیگر ممالک بھی دفاعی معاہدے کے خواہش مند ہیں، اسحاق ڈار
افغانستان کے حوالے سے خواجہ آصف کا موقف دو ٹوک تھا۔ انہوں نے کہا کہ "افغان سرزمین سے پاکستان میں دہشت گردی ہو رہی ہے، جس میں ہمارے شہری اور فوجی شہید ہو رہے ہیں۔ اگر ہمارے خلاف کارروائیاں جاری رہیں تو افغانستان کو دوست ملک نہیں کہا جا سکتا۔”
انہوں نے کہا کہ افغانستان سے آنے والے حملے ہمارے لیے ایک مستقل خطرہ بن چکے ہیں، اور یہ صورتحال مزید برداشت نہیں کی جا سکتی۔ وزیردفاع کے مطابق جب وہ افغانستان کے دورے پر گئے، تو افغان حکومت نے اپنے شہریوں کو واپس لینے کے لیے مالی خرچ طلب کیا، جس پر پاکستان نے کہا کہ وہ رقم دینے کو تیار ہے، لیکن واپسی کی کوئی گارنٹی ہونی چاہیے۔
خواجہ آصف نے افغان مہاجرین کے حوالے سے بھی سخت رویہ اختیار کیا اور کہا کہ "اگر آپ کے گھر سے میرے گھر پر حملے ہو رہے ہوں تو بھائی چارے کی بات نہیں کی جا سکتی۔ یہ منافقت ہوگی۔”
انہوں نے افغان باشندوں پر الزام لگایا کہ وہ پاکستانی پرچم کو سلام نہیں کرتے، ‘پاکستان زندہ باد’ کے نعرے نہیں لگاتے، تو پھر ہم انہیں بھائی کیسے کہہ سکتے ہیں؟