ملک بھر کی عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کی تعداد 23 لاکھ 62 ہزار سے تجاوز کر گئی، صرف ماتحت عدالتوں میں 19 لاکھ 55 ہزار سے زائد کیسز التواء کا شکار
کراچی: ملک کی سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور ضلعی عدالتوں سمیت عدالتی نظام کو سنگین دباؤ کا سامنا ہے۔ لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 31 دسمبر 2024 تک ملک کی مختلف عدالتوں میں مجموعی طور پر 23 لاکھ 62 ہزار 135 مقدمات زیر التواء ہیں۔ ان میں سے 83 فیصد یعنی 19 لاکھ 55 ہزار 758 مقدمات ضلعی سطح کی عدالتوں میں ہیں، جبکہ 17 فیصد یعنی 4 لاکھ 6 ہزار 377 مقدمات اعلیٰ عدالتوں میں زیر التواء ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں یکم جولائی 2024 کو 57 ہزار 666 مقدمات زیر التواء تھے۔ سال کے دوران 8 ہزار 496 نئے مقدمات دائر ہوئے اور 10 ہزار 517 مقدمات نمٹائے گئے، جس کے بعد سال کے اختتام پر زیر التواء مقدمات کی تعداد 57 ہزار 316 رہی۔ اسی طرح، وفاقی شرعی عدالت میں سال کے اختتام پر زیر التواء مقدمات کی تعداد 78 رہی۔
پانچوں ہائی کورٹس میں زیر التواء مقدمات کی مجموعی تعداد 3 لاکھ 48 ہزار 983 ہے، جن میں سب سے زیادہ مقدمات لاہور ہائی کورٹ میں ہیں جہاں 1 لاکھ 98 ہزار 5 کیسز زیر التواء ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ میں 86 ہزار 421، پشاور ہائی کورٹ میں 40 ہزار 667، اسلام آباد ہائی کورٹ میں 18 ہزار 618، اور بلوچستان ہائی کورٹ میں 5 ہزار 272 مقدمات التواء کا شکار ہیں۔
جے یو آئی کا علی امین گنڈا پور پر فارم 47 کے وزیر اعلیٰ ہونے کا الزام
ضلعی عدالتوں میں پنجاب سرِفہرست ہے، جہاں زیر التواء مقدمات کی تعداد 14 لاکھ 91 ہزار 951 ہو چکی ہے۔ خیبرپختونخوا میں 2 لاکھ 54 ہزار 830، سندھ میں 1 لاکھ 42 ہزار 435، اسلام آباد میں 51 ہزار 542، اور بلوچستان میں 18 ہزار 685 مقدمات زیر التواء ہیں۔
گزشتہ چھ ماہ کے دوران ملک بھر کی ضلعی عدالتوں میں 25 لاکھ 78 ہزار سے زائد نئے مقدمات دائر کیے گئے اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں مقدمات نمٹائے گئے، تاہم فیصلوں کی رفتار کے باوجود زیر التواء مقدمات میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کے عدالتی نظام میں مقدمات کے طویل عرصے تک زیر التواء رہنا ایک دیرینہ مسئلہ رہا ہے۔ 2014 میں بھی ایسی ہی صورتحال درپیش تھی، مگر وقت گزرنے کے باوجود عدالتوں پر بوجھ کم نہ ہو سکا۔ مسلسل دائر ہونے والے مقدمات اور عدالتی وسائل کی کمی کے باعث بروقت انصاف کی فراہمی ایک سنگین چیلنج بنتی جا رہی ہے، جس کے حل کے لیے جامع عدالتی اصلاحات ناگزیر ہیں۔