پاکستان میں جادو ٹونے کے خلاف کوئی مخصوص قانون اب تک نافذ نہیں ہو سکا، تاہم 2024 میں مجوزہ بل اور مختلف قانونی دفعات کے ذریعے کارروائی کی گنجائش موجود ہے، جبکہ یو اے ای جیسے ممالک میں واضح اور سخت قوانین لاگو ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں جادو ٹونا، عملیات اور سحر جیسے توہمات ایک عرصے سے معاشرے کا حصہ رہے ہیں، مگر ان کے خلاف کوئی باقاعدہ، جامع قانون آج تک مکمل طور پر نافذ نہیں ہو سکا۔ قیامِ پاکستان کے بعد سے لے کر آج تک اِن موضوعات پر مختلف سطحوں پر بحث تو ہوتی رہی، لیکن اِن سے جڑے سماجی نقصانات، مالی دھوکہ دہی اور بعض اوقات جانی نقصان جیسے سنگین مسائل کے باوجود انہیں روکنے کے لیے سخت قانون سازی کی ضرورت بدستور باقی ہے۔
2024 میں سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ نے ایک اہم قدم اٹھایا۔ Criminal Laws (Amendment) Bill, 2024 کے تحت جادو، ٹونا، سحر یا اس سے متعلق اشتہارات دینے والوں کے لیے 7 سال قید اور 1 ملین روپے جرمانہ تجویز کیا گیا۔ مسودۂ قانون میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ فعل عوامی مفاد کے خلاف ایک خطرناک رجحان ہے، جو معاشرتی کمزوریوں اور جہالت سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ تاہم یہ بل تاحال سینیٹ فل ہاؤس، قومی اسمبلی یا صدرِ مملکت کی منظوری سے نہیں گزرا، لہٰذا ابھی قانون نہیں بن سکا۔
جادو کرنے پر 7 سال قید اور 10 لاکھ تک جرمانہ ہوسکتا ہے، سینیٹ میں ترمیمی بل پیش
اس سے پہلے سندھ اسمبلی نے 2020 میں ایک الگ بل پیش کیا تھا جس میں جادوگری پر 3 سال قید اور جرمانے کی تجویز رکھی گئی، مگر وہ بھی قانون نہ بن سکا۔ خیبر پختونخوا میں 2022–23 کے دوران عاملوں اور جعلی پیروں کے خلاف عارضی کریک ڈاؤن ہوا، تاہم مستقل قانون سازی کا عمل مکمل نہ ہو سکا۔
فی الحال جادو ٹونے کے خلاف کارروائی مختلف موجودہ قوانین کے تحت ممکن ہے:
- پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 420— اگر کوئی شخص عملیات یا جادو کے نام پر فراڈ کرے تو اسے 7 سال تک قید ہو سکتی ہے۔
- دفعہ 505(1‑b)— اگر جادو کے ذریعے خوف و ہراس پھیلایا جائے۔
- دفعات 295 اور 298— اگر جادوگری مذہبی جذبات کو مجروح کرے۔
- سائبر کرائم ایکٹ (PECA 2016)— اگر آن لائن جعلی عملیات یا سحر کے دعوے کیے جائیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مخصوص اور سخت قانون سازی ناگزیر ہے، مگر اِس کے ساتھ اسلامی تعلیمات اور انسانی حقوق کے درمیان توازن بھی برقرار رکھنا ہوگا تاکہ کسی فرقے، فقہی نقطۂ نظر یا بے گناہ فرد کو نشانہ نہ بنایا جا سکے۔
دوسری طرف متحدہ عرب امارات کی مثال بہت واضح ہے، جہاں Federal Decree Law No. 31 of 2021 کے تحت جادو ٹونے کو براہِ راست جرم قرار دیا گیا ہے۔ وہاں جادو کے آلات، کتابیں، تعویذ یا اس نوع کے دعوے کرنے والے افراد کو قید، بھاری جرمانے اور غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کی سزائیں دی جاتی ہیں۔ 2023 میں یو اے ای کی ایک عدالت نے سات افراد کو صرف جادو کرنے کے دعوے پر 6 ماہ قید اور 50,000 درہم جرمانہ سنایا۔
پاکستان میں سرکاری اعداد و شمار تو موجود نہیں، لیکن PIDE کی ایک رپورٹ کے مطابق دیہی علاقوں میں 55 فیصد اور شہری علاقوں میں 45 فیصد لوگ جادو ٹونے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ 12 سے 13 کروڑ پاکستانی کسی نہ کسی شکل میں اِن عقائد سے متاثر ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک بھر میں 60 ہزار سے زائد افراد جعلی عامل، نجومی یا روحانی معالج بن کر کام کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ جادو ٹونا نہ صرف عقیدے کا استحصال کرتا ہے بلکہ بعض اوقات مالی، ذہنی اور جسمانی نقصان کا باعث بھی بنتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ریاست اِس رجحان کے خلاف مؤثر اور جامع قانون سازی کرے تاکہ عوام کو اِن خطرناک فریبوں سے بچایا جا سکے اور ایک باخبر، محفوظ معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔