برطانیہ میں پاکستانی نژاد 10 سالہ سارہ کے اندوہناک قتل کیس نے نہ صرف معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، بلکہ اس واقعے نے برطانوی پارلیمنٹ کو بھی متحرک کر دیا ہے۔ برطانیہ کی تاریخ کے اس افسوسناک کیس کے بعد اب پارلیمنٹ میں ’’سارہ لاز‘‘ کے نام سے ایک بل پر بحث جاری ہے، جس کا مقصد گھریلو تشدد اور بچوں پر ہونے والے جنسی و جسمانی تشدد سے بچاؤ کے لیے موثر قانونی اقدامات کرنا ہے۔
یہ بل پاکستانی نژاد لارڈ محمد اشرف نے پیش کیا ہے، جنہوں نے میڈیا سے گفتگو میں واضح کیا کہ "سارہ لاز” کا مقصد مستقبل میں سارہ جیسے کیسز کی روک تھام اور متاثرہ بچوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اگر پارلیمنٹ اس بل کو منظور کر لیتی ہے تو یہ قانون بچوں کے لیے تحفظ کی ایک مضبوط ڈھال ثابت ہوگا۔
سارہ کی کہانی جہلم کے علاقے کڑی جنجیل سے شروع ہوئی، جہاں کے رہائشی عرفان شریف کی بیٹی سارہ برطانیہ میں اپنی سوتیلی ماں بینش بتول کے ساتھ رہ رہی تھی۔ اگست 2023 میں اس معصوم بچی کے قتل نے پورے ملک کو افسردہ کر دیا۔ عدالت میں پیش کردہ شواہد کے مطابق سارہ کو دو سال تک غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جس میں جسم کو استری سے جلانا، دانتوں کے نشانات اور دیگر جسمانی اذیت شامل تھی۔
قتل کے بعد ملزمان پاکستان فرار ہو گئے، تاہم برطانوی حکومت کی درخواست پر انٹرپول کے ذریعے انہیں واپس برطانیہ لایا گیا۔ لندن ایئرپورٹ پر عرفان شریف اور بینش بتول کو گرفتار کیا گیا جبکہ بچی کے چچا فیصل ملک کو بھی معاونت کے الزام میں حراست میں لیا گیا۔
لندن کی کرمنل کورٹ نے مقدمے کی سماعت کے بعد عرفان شریف کو 40 سال، بینش بتول کو 33 سال اور فیصل ملک کو 16 سال قید کی سزا سنائی۔ عدالت نے واضح کیا کہ عرفان شریف کی رہائی کا فیصلہ سزا مکمل ہونے کے بعد کیا جائے گا۔
سارہ اب دنیا میں نہیں، لیکن اس کے نام سے بننے والا "سارہ لاز” بل اگر قانون کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو یہ دیگر بچوں کے لیے ایک تحفظ کی علامت بنے گا۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی سمیت انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اس قانون سازی کی بھرپور حمایت کر رہی ہیں تاکہ آئندہ کوئی اور بچی سارہ جیسے ظلم کا شکار نہ ہو۔
یاد رہے کہ سارہ قتل کیس صرف ایک عدالتی مقدمہ نہیں بلکہ انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والا واقعہ ہے، جس نے دنیا بھر میں بچوں کے تحفظ کے قوانین پر نظرثانی کی ضرورت کو اجاگر کر دیا ہے۔