اسلام آباد: بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی رہائی کے لیے تازہ کاوشوں کے سلسلے میں امریکا میں مقیم پاکستانی ڈاکٹرز اور کاروباری شخصیات ایک بار پھر پاکستان آ پہنچی ہیں۔ یہ افراد پسِ پردہ سفارتی سرگرمیوں کا حصہ سمجھے جا رہے ہیں۔
جیو نیوز کے مطابق، ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ وفد نے چند ماہ قبل اسلام آباد کا دورہ کیا تھا، جس دوران ایک اعلیٰ حکومتی شخصیت سے ملاقات کے ساتھ ساتھ جیل میں عمران خان سے بھی ملاقات کی گئی تھی۔ اس وقت یہ وفد لاہور میں موجود ہے۔
تاحال اطلاعات کے مطابق، یہ وفد عمران خان سے دوبارہ ملاقات کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا، اور اس بات کی بھی تصدیق نہیں ہو پائی کہ ان کی کسی حکومتی شخصیت سے کوئی پیش رفت ہوئی ہے یا نہیں۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ ہفتے میں متوقع ملاقاتیں اس مشن کے لیے فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہیں۔
مبصرین کے مطابق، یہ سرگرمیاں اوورسیز پاکستانیوں اور پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے قانونی و سیاسی میدان میں اثرانداز ہونے کی نئی کوششوں کا حصہ ہیں۔
اگرچہ حالیہ مہینوں میں غیر رسمی روابط سامنے آئے ہیں، مگر کسی نمایاں کامیابی کی اطلاع نہیں ملی۔ اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان سفارتی کوششوں میں پیش رفت کا انحصار نہ صرف سیاسی مذاکرات پر ہے بلکہ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے بیانیے اور امریکا و برطانیہ میں سرگرم پارٹی چیپٹرز کے طرزِ عمل پر بھی ہے۔
فوجی قیادت کئی بار واضح کر چکی ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں براہِ راست مداخلت نہیں کرے گی اور تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے مسائل باہمی طور پر حل کرنے چاہییں۔ تاہم، اس موقف کے باوجود پی ٹی آئی کے بعض رہنما پسِ پردہ اعلیٰ حکام سے بات چیت کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق، عمران خان اور پارٹی کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس، نیز بیرون ملک پی ٹی آئی چیپٹرز کی جانب سے فوج پر مسلسل تنقید، مصالحت کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔ مختلف سوشل میڈیا مہمات، غلط معلومات کے پھیلاؤ اور بیرونِ ملک لابنگ جیسے اقدامات نے ان تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
پارٹی کے بعض سینئر رہنما نجی محفلوں میں یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس جارحانہ حکمتِ عملی نے عمران خان کے لیے ممکنہ ریلیف کی کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ پارٹی کے اندر بھی یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ موجودہ صورتِ حال سے نکلنے کے لیے سوشل میڈیا پر رویہ نرم کرنا ضروری ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عمران خان کے لیے کوئی مثبت پیش رفت اس وقت ہی ممکن ہے جب پارٹی ریاستی اداروں پر تنقید سے گریز کرے، معیشت کی بحالی کی کوششوں میں رخنہ نہ ڈالے، اور سنجیدہ مذاکرات کے لیے ماحول سازگار بنائے۔
اوورسیز پاکستانیوں کی ایک بار پھر پاکستان میں متحرک ہونے کی کوششوں کے تناظر میں، تجزیہ نگار اس بات پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ آیا یہ نئی کوششیں کسی مصالحتی عمل کی نوید ہیں یا یہ موقع بھی ضائع کر دیا جائے گا۔