پاک بھارت کشیدگی میں چینی جنگی ٹیکنالوجی کا امتحان، جے 10 کی کارکردگی زیرِ بحث

تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا وٹس ایپ چینل جوائن کریں

فضائی جھڑپ کی اصل حقیقت اب تک غیر واضح ہے۔ چند میڈیا اداروں نے بھارتی پنجاب اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی طیارے گرنے کی اطلاعات دی ہیں، تاہم بھارتی حکومت نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

latest urdu news

امریکی حکام: پاکستان نے جے-10 طیارے استعمال کیے

بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے امریکی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستان نے ممکنہ طور پر چین کے تیار کردہ جے 10 لڑاکا طیارے استعمال کرتے ہوئے بھارتی فضائیہ کو نشانہ بنایا۔ پاکستان نے اس آپریشن میں چینی اسلحے پر انحصار کو اپنی کامیابی کا سبب قرار دیا، جسے بعض ماہرین نے چین کی دفاعی صنعت کے لیے ایک بڑی کامیابی قرار دیا ہے، جبکہ کچھ تجزیہ کار اس سے اختلاف رکھتے ہیں۔

چین کی دفاعی صنعت کا "ڈیپ سیک” لمحہ؟

کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال چین کی ہتھیار سازی کی صنعت کے لیے ویسا ہی نکتہ عروج ہے جیسا "ڈیپ سیک” لمحہ تھا—یعنی وہ لمحہ جب رواں سال جنوری میں چینی مصنوعی ذہانت کی ایک ایپ نے سستی ٹیکنالوجی سے مغربی مارکیٹ کو حیران کر دیا تھا۔

چینی ردعمل: فخر اور دعوے

چینی پیپلز لبریشن آرمی کے سابق کرنل ژو بو نے کہا کہ "یہ ایک نادر موقع تھا جس میں چین کے ہتھیار جنگی حالات میں آزمائے گئے، اور یہ ہماری دفاعی صنعت کے لیے بڑی تشہیر ثابت ہوا۔” بیجنگ میں موجود ایک تجزیہ کار کے مطابق، "اس معرکے نے ثابت کر دیا کہ چین کے کچھ نظام عالمی سطح پر بے نظیر ہیں۔”

لڑائی کی خبروں کے بعد چین کی جے 10 طیارہ تیار کرنے والی کمپنی "چنگڈو ایئرکرافٹ” کے شیئرز میں تقریباً 40 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ تاہم، دیگر ماہرین کا ماننا ہے کہ چینی ہتھیاروں کی برتری کا اعلان ابھی قبل از وقت ہے۔

کنگز کالج لندن کے پروفیسر والٹر لیڈوگ کا کہنا ہے کہ فی الحال یہ طے نہیں ہو سکا کہ جے 10 واقعی بھارتی رفال طیاروں پر سبقت لے گیا۔ ان کے مطابق اگرچہ انڈین فضائی مشن کا مقصد اشتعال انگیزی نہیں لگتا، مگر ان پائلٹس کو اس وقت پرواز کی اجازت دی گئی جب پاکستانی دفاعی نظام مکمل الرٹ پر تھا۔

بھارت کا مبہم مؤقف اور سوشل میڈیا کا جوش

ابھی تک بھارتی فضائیہ نے اپنے مشن کی تفصیلات یا حکمت عملی سے پردہ نہیں اٹھایا۔ بیجنگ نے بھی جے 10 کی مبینہ کارکردگی پر باضابطہ بیان جاری نہیں کیا، لیکن چینی سوشل میڈیا پر اس پر فخر اور خوشی کی لہر دیکھی گئی۔

چینی سیکیورٹی امور کی ماہر کارلوٹا ریناڈو کا کہنا ہے کہ "چاہے حقیقت کچھ بھی ہو، لیکن تاثر زیادہ اہم ہے، اور اس زاویے سے دیکھیں تو چین ہی فاتح ہے۔”

چین-پاکستان تعلقات اور مفادات

پاکستان اور چین کے دہائیوں پر محیط تعلقات کی روشنی میں، ایک مضبوط پاکستان چین کے مفاد میں ہے۔ پاکستانی دفاعی تجزیہ کار امتیاز گل کے مطابق، "چین نے اس تنازع میں فیصلہ کن کردار ادا کیا اور انڈین منصوبہ سازوں کو حیران کر دیا۔”

عالمی توجہ: ہتھیاروں کی منڈی پر اثرات

یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب دنیا بھر کی نظریں چینی ہتھیاروں کی کارکردگی پر مرکوز ہیں، کیونکہ یہ اسلحہ مارکیٹ پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ امریکہ اب بھی دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار برآمد کرنے والا ملک ہے، جبکہ چین اس فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔

تاریخی پس منظر: 2019 کی جھڑپ یادگار

یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب بھارت نے پاکستان کے ہاتھوں فضائی نقصان اٹھایا ہو۔ 2019 میں بھی ایک مختصر جھڑپ کے دوران بھارتی مگ 21 طیارہ پاکستانی حدود میں مار گرایا گیا تھا، اور پائلٹ ابھینندن کو پاکستان نے گرفتار کر کے بعد میں رہا کر دیا تھا۔

بھارت نے تب دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پائلٹ نے ایف 16 کو مار گرایا تھا، تاہم پاکستان نے اس دعوے کی تردید کی تھی۔

حالیہ حملے: متضاد دعوے

تازہ جھڑپ کے بعد والٹر لیڈوگ کا کہنا ہے کہ بھارت نے 10 مئی کی صبح پاکستان کے اندر کچھ اہم اہداف کو نشانہ بنایا، لیکن یہ خبریں عالمی میڈیا میں زیادہ اجاگر نہ ہو سکیں۔ انڈین فوج کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے راولپنڈی کے قریب نور خان ایئربیس سمیت پاکستان کے 11 فضائی اڈوں پر میزائل حملے کیے۔

ان کے مطابق انڈین حملے منظم تھے: پہلے ایئر ڈیفنس اور راڈار سسٹمز کو تباہ کیا گیا، پھر زمینی اہداف پر حملے ہوئے۔ تصاویر اور رپورٹوں کے مطابق ایئربیسز کے رن وے کے بیچ گڑھے بن گئے۔ اگر یہ جھڑپ طویل ہوتی، تو ان ایئربیسز کو دوبارہ فعال کرنا پاکستان کے لیے چیلنج بن سکتا تھا۔

پاکستان کا ردعمل اور عالمی مداخلت

پاکستانی مؤقف ہے کہ اس نے بھارتی حملوں کے ردعمل میں انڈیا کے متعدد ایئربیسز پر حملے کیے، تاہم بھارت کا کہنا ہے کہ انھیں کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا۔

جیسے ہی کشیدگی بڑھی، امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے مداخلت کی اور دونوں ملکوں کو جنگ روکنے پر مجبور کیا۔

دفاعی سبق اور مستقبل کا لائحہ عمل

تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ واقعہ بھارت کے لیے ایک "ویک اپ کال” ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ اسے اپنی دفاعی صنعت میں زیادہ سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔

اگرچہ بیجنگ نے اس جھڑپ پر براہ راست کوئی ردعمل نہیں دیا، لیکن یہ ضرور ظاہر ہو گیا کہ وہ اپنے ہتھیاروں کی عالمی ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جے 10 وہی طیارے ہیں جو بیجنگ اب خود استعمال نہیں کر رہا۔ چین اب جے 20 سٹیلتھ فائٹر جیسے جدید طیارے اپنی افواج میں شامل کر چکا ہے، جو راڈار سے بچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

چین اور بھارت کے درمیان پہلے بھی سرحدی تنازعات ہو چکے ہیں، جن میں 1962 کی جنگ اور 2020 کی لداخ جھڑپ شامل ہیں۔ موجودہ صورتحال نے بھارت کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اس کی دفاعی تیاری کس سطح پر ہے۔

فی الحال، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چین کی دفاعی صنعت جے 10 کی ممکنہ کامیابی پر اطمینان اور فخر کا اظہار کر رہی ہے۔

شیئر کریں:

ہمیں فالو کریں

frontpage hit counter