یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ایک بار پھر سخت مؤقف اپناتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یوکرین جنگ بندی کے بدلے اپنی زمین کا کوئی حصہ روس کو نہیں دے گا۔
یورپی کمیشن میں پریس کانفرنس کے دوران زیلنسکی نے کہا کہ یوکرین کا آئین کسی بھی علاقے سے دستبرداری یا زمین کے بدلے امن معاہدے کی اجازت نہیں دیتا۔ ان کا کہنا تھا:
"کیف کسی صورت میں اپنی سرزمین روس کو دینے پر تیار نہیں۔”
انہوں نے ان قیاس آرائیوں کو بھی مسترد کر دیا کہ یوکرین "زمین کے بدلے امن” پر کسی قسم کی بات چیت کر سکتا ہے۔
زیلنسکی نے کہا کہ مشرقی یوکرین میں ڈونباس کے علاقے پر روسی قبضے کی کوششیں گزشتہ بارہ سال سے جاری ہیں لیکن ہمیشہ ناکام رہی ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ اس تنازع کا حل صرف یوکرین، روس اور امریکہ کے درمیان براہ راست سہ فریقی مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔ تاہم روس نے اب تک ایسے کسی مکالمے پر رضامندی ظاہر نہیں کی۔
پریس کانفرنس میں موجود یورپی کمیشن کی صدر اُرزولا وان ڈیر لیین نے یوکرین کے مؤقف کی مکمل حمایت کرتے ہوئے کہا: "طاقت کے زور پر یوکرین کی حدود تبدیل نہیں کی جا سکتیں۔ ان پر کوئی بھی فیصلہ یوکرین کی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں۔”
یوکرین جنگ: روس کے جنگ بندی سے انکار نے صورتحال مزید پیچیدہ بنا دی، زیلنسکی
یہ بیانات اس وقت سامنے آئے ہیں جب روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی الاسکا میں حالیہ ملاقات ہوئی، جس میں پیوٹن نے جنگ بندی کے لیے مشرقی یوکرین کے کچھ علاقوں پر روسی کنٹرول کو اپنی شرط قرار دیا۔
"روس ایک بڑی طاقت ہے، یوکرین نہیں زیلنسکی کو شاید کچھ شرائط مان لینی چاہئیں۔”
ان بیانات کے بعد امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے وضاحت کی کہ صدر ٹرمپ یوکرین پر کسی بھی قسم کا دباؤ ڈالنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور یوکرین کی خودمختاری کو مکمل طور پر تسلیم کرتے ہیں۔
زیلنسکی کے حالیہ مؤقف نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ یوکرین اپنی زمین، خودمختاری اور قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا، چاہے سیاسی یا عسکری حالات کچھ بھی ہوں۔