واشنگٹن ، ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ بھارت مصنوعی ذہانت (AI) کے شعبے میں امریکی اتحادی ہونے کے باوجود چینی کمپنیوں کے ساتھ خفیہ تعاون جاری رکھے ہوئے ہے ، جس پر امریکی حکام نے سخت ردعمل دیا ہے۔
واشنگٹن میں سیکیورٹی امور سے متعلق ایک بند کمرہ اجلاس میں امریکی قانون سازوں اور تھنک ٹینکس نے بھارت کی اس دوغلی پالیسی پر تشویش کا اظہار کیا۔
رپورٹ کے مطابق، بھارتی ٹیکنالوجی اداروں اور تحقیقی مراکز نے چینی AI کمپنیوں کے ساتھ کئی مشترکہ منصوبے شروع کیے ہیں، جن میں حساس نوعیت کے ڈیٹا شیئرنگ کے امکانات بھی شامل ہیں، امریکی حکام کا کہنا ہے کہ بھارت بظاہر تو کوانٹم کمپیوٹنگ، AI اور سائبر سیکیورٹی کے میدان میں امریکہ کے ساتھ اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن پس پردہ بیجنگ سے قریبی روابط استوار کر رہا ہے۔
ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ بھارت کو وضاحت دینی ہوگی کہ وہ حساس ٹیکنالوجی میں چین کے ساتھ اشتراک کیوں کر رہا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب واشنگٹن بیجنگ پر تکنیکی برتری کی دوڑ میں سخت پابندیاں عائد کر چکا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ بھارت نے امریکی تعاون سے حاصل ہونے والی ٹیکنالوجی کا بعض مواقع پر چینی اداروں کے ساتھ غیر رسمی اشتراک کیا ہے، جس سے نہ صرف ٹیکنالوجی کی سیکیورٹی کو خطرات لاحق ہوئے بلکہ امریکہ میں اعتماد کا فقدان بھی پیدا ہوا ہے۔
امریکی کانگریس میں موجود بعض اراکین نے وائٹ ہاؤس سے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت سے سٹریٹجک ٹیکنالوجی شراکت داری پر نظر ثانی کی جائے جب تک وہ اپنی پالیسیوں میں مکمل شفافیت نہیں لاتا، ماہرین کے مطابق، اگر بھارت نے اپنی دوطرفہ وابستگیوں میں وضاحت نہ دی تو اسے مستقبل میں امریکی دفاعی اور تکنیکی اعتماد سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔
یاد رہے کہ امریکا اور بھارت نے 2023 میں “US-India Initiative on Critical and Emerging Technologies” (iCET) کے تحت AI، 5G، اور خلائی تحقیق میں تعاون کا اعلان کیا تھا، جس کا مقصد چین کا مقابلہ کرنا تھا، مگر موجودہ صورتحال نے ان وعدوں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔