امریکی سینٹ کام کمانڈر جنرل مائیکل ایرک کوریلا نے پاکستان کو داعش خراساں کے خلاف جنگ میں اہم شراکت دار قرار دیا اور انٹیلی جنس تعاون کی تعریف کی۔
واشنگٹن میں امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے اجلاس کے دوران یونائیٹڈ اسٹیٹس سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کے کمانڈر جنرل مائیکل ایرک کوریلا نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان کے کردار کو سراہتے ہوئے اسے ایک غیر معمولی انسداد دہشت گردی شراکت دار قرار دیا۔ جنرل کوریلا نے کہا کہ داعش خراساں اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ سرگرم دہشت گرد تنظیموں میں سے ایک ہے اور اس کے خلاف کارروائی میں پاکستان کی شراکت انتہائی مؤثر رہی ہے۔
انہوں نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ پاکستان کے ساتھ قریبی انٹیلی جنس تعاون کے نتیجے میں داعش خراساں کے متعدد اہم دہشت گردوں کو ہلاک یا گرفتار کیا گیا، جن میں تنظیم کے پانچ انتہائی مطلوب رہنما بھی شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکام نے انٹیلی جنس شیئرنگ کے ذریعے امریکا کو کئی اہم کامیابیاں دلائیں، جن میں کابل ایئرپورٹ پر 26 اگست 2021 کے حملے کے ماسٹر مائنڈ شریف اللہ عرف جعفر کی گرفتاری بھی شامل ہے۔ یہ گرفتاری مارچ 2025 میں پاک افغان سرحد پر ایک خصوصی آپریشن کے دوران عمل میں آئی، اور پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اس گرفتاری کی اطلاع ذاتی طور پر فراہم کی۔
جنرل کوریلا کے مطابق داعش خراساں اس وقت پاکستان اور افغانستان کی سرحدی پٹی میں سرگرم ہے، اور پاکستان کی انٹیلی جنس معاونت عالمی سطح پر انسداد دہشت گردی کے لیے نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کے ساتھ جاری انٹیلی جنس تعاون نہ صرف خطے بلکہ دنیا بھر میں سیکیورٹی کے فروغ کے لیے مؤثر رہا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان نے مارچ 2025 میں امریکی سی آئی اے کی فراہم کردہ معلومات پر کارروائی کرتے ہوئے داعش کے مطلوب دہشت گرد شریف اللہ کو گرفتار کیا تھا، جسے امریکی حکام ایک اعلیٰ ہدف تصور کرتے تھے۔ یہ گرفتاری دونوں ممالک کے درمیان انسداد دہشت گردی کے اشتراک کی نمایاں مثال ہے۔