لندن: برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا نے فلسطین کو باضابطہ طور پر ریاست تسلیم کرلیا ہے، جسے عالمی سطح پر دو ریاستی حل کی بحالی اور اسرائیل پر سیاسی دباؤ بڑھانے کی ایک بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری اپنے بیان میں کہا کہ "فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے امن اور دو ریاستی حل کی امید کو زندہ رکھنے کے لیے برطانیہ نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔” انہوں نے واضح کیا کہ حماس کا فلسطین کی حکومت یا سکیورٹی کے ڈھانچے میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔
برطانیہ نے جولائی میں اسرائیل کو الٹی میٹم دیا تھا کہ اگر غزہ میں جاری بحران کے خاتمے کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو ستمبر میں فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلیا جائے گا۔
Today, to revive the hope of peace for the Palestinians and Israelis, and a two state solution, the United Kingdom formally recognises the State of Palestine. pic.twitter.com/yrg6Lywc1s
— Keir Starmer (@Keir_Starmer) September 21, 2025
کینیڈا نے بھی فلسطین کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی حکومت فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنے کے لیے منظم حکمتِ عملی سے کام کر رہی ہے۔ کینیڈین وزیراعظم مارک کارنی نے اعلان کیا کہ فلسطینی اتھارٹی نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ 2026 تک عام انتخابات کرائے گی، حکمرانی کے ڈھانچے میں بنیادی اصلاحات کرے گی، حماس کو حکومت میں شامل نہیں کرے گی اور فلسطینی ریاست کو غیر مسلح بنایا جائے گا۔
Today, Canada recognises the State of Palestine. pic.twitter.com/zhumVJRBfe
— Mark Carney (@MarkJCarney) September 21, 2025
فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا فیصلہ امن مذاکرات آگے بڑھانے کی کوششوں کا حصہ ہے، برطانوی نائب وزیراعظم
اسی طرح آسٹریلیا نے بھی فلسطین کو باضابطہ ریاست تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام دو ریاستی حل کے لیے عالمی کوششوں کا حصہ ہے۔ آسٹریلوی حکومت نے عندیہ دیا کہ فلسطینی اتھارٹی کی یقین دہانیوں پر عمل درآمد کے بعد فلسطین کے ساتھ باضابطہ سفارتی تعلقات اور سفارتخانوں کے قیام جیسے اقدامات کیے جائیں گے۔
My statement formally recognising the State of Palestine. pic.twitter.com/HtBmnIQGBS
— Anthony Albanese (@AlboMP) September 21, 2025
تین اہم مغربی ممالک کے اس فیصلے کو اسرائیل فلسطین تنازع کے حل کے لیے ایک بڑی سفارتی پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم اسرائیلی حکومت پہلے ہی ایسے اقدامات کو "غیر مفید” قرار دے چکی ہے اور اس کا موقف ہے کہ امن کا واحد راستہ براہِ راست مذاکرات ہیں۔