امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک حالیہ خطاب میں روس کو سخت پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ روسی سرحدوں کے قریب نیوکلیئر آبدوزیں تعینات کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جوہری طاقت کے استعمال کو مکمل طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا، اور امریکہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانے کو تیار ہے۔
ورجینیا کے شہر کوانٹیکو میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے احتیاطی تدبیر کے طور پر ایک یا دو جوہری آبدوزیں روس کے قریب منتقل کی ہیں تاکہ ماسکو کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ امریکہ دفاعی معاملات میں سنجیدہ ہے۔ ان کے بقول، "ہم صرف طاقت کے ذریعے دنیا کو اپنی بات سنوا سکتے ہیں، اگر ہم کمزور ہوتے تو کوئی ہماری کال تک نہ سنتا۔”
ٹرمپ نے "نیوکلیر” لفظ کو ایک حساس اصطلاح قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اسے "این-ورڈ” کے طور پر حوالہ دیتے ہیں، کیونکہ اس کا استعمال سوچ سمجھ کر ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق، دنیا میں دو "این ورڈز” ہیں جن کا غیر ضروری استعمال ناقابل قبول ہے۔
صدر نے دعویٰ کیا کہ ان کے دورِ حکومت میں صرف نو ماہ کے دوران سات ممکنہ جنگیں روکی گئیں۔ ان میں سب سے سنگین خطرہ پاکستان اور بھارت کے درمیان نیوکلیئر جنگ کا تھا، جسے انہوں نے سفارتی کوششوں کے ذریعے ٹالنے کا دعویٰ کیا۔
صدر ٹرمپ کا بڑا اعتراف: فیلڈ مارشل عاصم منیر کی تعریف میرے لیے اعزاز ہے
انہوں نے اس موقع پر یوکرین جنگ کے حوالے سے بھی کہا کہ وہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو براہِ راست مذاکرات کی میز پر لانا چاہتے ہیں، لیکن یہ عمل صرف طاقت اور اثر و رسوخ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
ٹرمپ نے غزہ کے موجودہ حالات پر بھی گفتگو کی اور کہا کہ اگر ان کا پیش کردہ امن منصوبہ کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ آٹھویں بڑی جنگ کو بھی روکنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ انہوں نے حماس سے مطالبہ کیا کہ وہ اس منصوبے کو تسلیم کرے تاکہ خطے میں دیرپا امن قائم ہو سکے۔
اپنے خطاب کے اختتام پر ٹرمپ نے امریکی نیوکلیئر آبدوزوں کی ٹیکنالوجی پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ روس سے کم از کم 25 سال جدید ہیں اور امریکہ اپنی دفاعی طاقت میں کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔